1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا پی ٹی آئی میں تقسیم کے امکانات بڑھ رہے ہیں؟

عبدالستار، اسلام آباد
19 اپریل 2019

وزراء کے قلمدانوں میں تبدیلی اور نئے وزراء کی آمد سے پی ٹی آئی میں تقسیم کے امکانات بڑھ گئے ہیں اور کئی مبصرین کا خیال ہے کہ پارٹی میں جہانگیر ترین دھڑا طاقت ور ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3H5EU
China Pakistans Premierminister Imran Khan
تصویر: AFP/T. Peter

کئی حلقوں کا خیال ہے کہ اسد عمر کے جانے پر شاہ محمود قریشی کا گروپ ناراض ہے جب کہ شفقت محمود اور شیریں مزاری بھی اس فیصلے پر ناخوش ہیں۔
تاہم سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پارٹی میں مختلف سوچ رکھنے والے گروپس مناسب وقت کا انتظار کریں گے کیونکہ انہیں یہ اندازہ ہے کہ طاقت ورحلقے اب بھی عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

عمران خان کی کوئٹہ جانے میں ہچکچاہٹ: کیا کوئی دباؤ ہے؟

مودی نے پاکستانی جوہری خطرے کو غیر اہم قرار دے دیا
وزراء کے قلمدانوں میں تبدیلی کے ایک دن بعد ہی نئی وزارتوں کے حوالے سے اختلافات کی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ غلام سرور کے ایک قریبی ذریعے نے ڈی ڈبلیو کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ اس تبدیلی سے بالکل خوش نہیں ہیں۔ ’’پیڑولیم کی وزرات میں غلام سرور کا ایک بڑا اسٹیک ہے۔ ان کے اپنے پیڑول پمپس بھی ہیں اور اس وزارت سے ان کو فائدہ بھی تھا۔ بڑا مشکل ہے کہ وہ ایوی ایشن جیسی منسڑی کو قبول کریں۔‘‘
پی ٹی آئی کے حلقے بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ پارٹی میں اختلافات ہیں۔ پارٹی کے سینئررہنما ظفر علی شاہ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اب اختلافات کے آثار کھل کر نظر آنے شروع ہو گئے ہیں۔ اسد عمر نے بھی غیر منتخب لوگوں کی بات کی، جس میں سے کئی سابقہ ادوار میں پی پی پی کے ساتھ رہے ہیں۔ یہ تاثر ہے کہ جہانگیر ترین دھٹرا طاقت ور ہوا ہے۔ لازمی بات ہے جب کوئی ایک کمزور ہوگا تو کوئی دوسرا طاقت ور ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ اس تبدیلی میں ترین کا مشورہ شامل ہے۔‘‘
تاہم پی ٹی آئی کے دوسرے ذرائع کا کہنا ہے کہ اختلاف رکھنے والے عناصر پارٹی کو خیر بعد نہیں کہیں گے۔ ان کے خیال میں ریاست کے طاقت ور حلقے عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی میں تقسیم پہلے سے تھی جو اب تیز ہو رہی ہے۔ ’’پی ٹی آئی میں سخت تقسیم ہے اور عمران خان نے اس کو جوڑے رکھا ہوا ہے۔ تاہم اس تقسیم سے سردست پی ٹی آئی کو خطرہ نہیں۔ جب تک وہ حکومت میں ہیں لوگ ان کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔‘‘
ان کاکہنا تھا کہ اس تقسیم کی ذمہ داری عمران خان پر بھی عائد ہوتی ہے۔’’کبھی خان صاحب جہانگیر ترین کو کابینہ کے اجلاسوں میں بلاتے ہیں تو کبھی شاہ محمود قریشی کو رام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں اس تقسیم کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ پرانے پی ٹی آئی کارکنوں کو نئے آنے والوں پر تحفظات ہیں۔ پارٹی کے پرانے کارکنوں کو اسد عمر کو ہٹانے پر تحفظات ہیں اور اگر عمران ان سے مشورہ کرتے تو وہ خان صاحب کو ایسا نہیں کرنے دیتے۔ پارٹی میں تقسیم بڑھ رہی ہے۔ اگر خان صاحب نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا تو ان کی پارٹی کو نقصان ہو سکتا ہے۔ تاہم یہ نقصان پارٹی کے اقتدار کو ختم نہیں کرے گا کیونکہ طاقت ور حلقوں کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے۔‘‘


دوسری طرف ملک میں کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ عمران خان نے کارکردگی کی بنیاد پر وزراء کے قلمدانوں میں تبدیلی کی ہے اور یہ کہ وزراء کی کارکردگی کے حوالے سے کئی بار سوالات کئے گئے۔ اسد عمر سے مہنگائی کا شکوہ کیا گیا جب کہ غلام سرور سے پیٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کے حوالے سے پوچھ گچھ کی گئی۔ لیکن کچھ دیگر حلقوں کا خیال ہے کہ تبدیلی جی ایچ کیو کے کہنے پر لائی گئی، جو ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور حکومت کی بری کارکردگی سے پریشان تھا۔ آرمی چیف جنرل باجوہ اور عمران خان کے درمیان کل ہونے والی ملاقات نے ان افواہوں کو مذید تقویت دی۔ تاہم معروف تجزیہ نگار جنرل امجد شیعب اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے تاثر کو غلط قرار دیتے ہیں۔’’ایک مرتبہ جنرل باجوہ نے تجارتی خسارے پر کراچی میں بات کی تھی تو اسحاق ڈار نے بہت برا منایا تھا۔ تو میرا خیال ہے کہ آرمی ان امور میں مداخلت نہیں کرتی۔ اسد عمر کے جانے کی وجہ صاف تھی۔ مہنگائی ، قرضے، سرکلر ڈیٹ اور معاشی بدحالی بڑھ رہی ہے۔ ایک سو انسٹھ کے قریب سرکاری ادارے خسارے میں چل رہے ہیں۔ اور اُس کے پاس نہ کوئی معاشی پالیسی تھی اور نہ مالی پالیسی۔ اکنامک کونسل بنائی لیکن وہ ان سے بھی نہیں ملتا تھا۔ تو اسے تو تبدیل ہونا تھا۔اس میں فوج کو کوئی کردار نہیں ہے۔‘‘
کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ وزراء کی تبدیلی سے دوسری وزارتوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا البتہ معاشی پالیسیوں میں تبدیلی آسکتی ہے اور آئی ایم ایف کے کہنے پر اصلاحات کا عمل تیز کیا جا سکتا ہے۔ معروف معیشت دان ڈاکڑ عذرا طلعت سعید کا کہنا ہے کہ معاشی طور پر پاکستان کو مذید سختیوں کا سامنا کرنا پڑے گا ۔’’ایسا لگتا ہے کہ عام آدمی جو ایک وقت کی روٹی کھا لیتا تھا ، اب وہ بھی مشکل ہو جائے گی کیونکہ حفیظ شیخ صاحب کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ وہ عالمی مالیاتی اداروں کے لیے انتہائی مناسب شخص ہیں اور وہ نجکاری سمیت تمام ان پالیسیوں پر سختی سے عمل کریں گے ، جو عالمی مالیاتی ادارے چاہتے ہیں۔‘‘
ممکنہ تبدیلیوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ بجلی، گیس اور پیڑول سمیت تمام اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ ’’اس کے علاوہ آپ کا قرضہ مذید بڑھے گا۔ یہ غلط تصور ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے اپ کا قرضہ ختم کرنا چاہتے ہیں۔ دراصل وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان قرضوں میں گھرا رہے تاکہ وہ ہماری پالیسیاں بناتے رہیں۔اصل میں ہماری پالیسیوں کو کنٹرول کرنا بنیادی مقصد ہے۔