1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ماحول

کیا پاکستان دوسرے ملکوں کے کچرے کا کوڑا دان بنتا جا رہا ہے؟

31 جولائی 2022

ماہرین ماحولیات اور سیاست دانوں نے ان رپورٹس پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ بہت سے ترقی یافتہ ممالک اپنے خطرناک کچرے پاکستان بھیج رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4ElG1
Pakistan Müllsammler auf Mülldeponie
تصویر: epa Akhtar Soomro/dpa/picture-alliance

پاکستانی کے مقامی میڈیا کے مطابق ایک پارلیمانی کمیٹی نے ان رپورٹس کا نوٹس لیا ہے کہ برطانیہ، متحدہ عرب امارات، ایران اور سعودی عرب سمیت متعدد ممالک سے بھاری مقدار میں خطرناک فضلات پاکستان میں پھینکے جا رہے ہیں۔

کمیٹی کے ایک رکن سینیٹر محمد ہمایوں مہمند نے ڈی ڈبلیو کو ان رپورٹس کی تصدیق کی۔

انہوں نے کہا، ''متعلقہ حکام نے ہمیں بتایا ہے کہ پاکستان دیگر ممالک سے کچرا درآمد کر رہا ہے لیکن اس کے پاس عام فضلے سے خطرناک فضلہ کو الگ کرنے کے لیے مطلوبہ ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ عام فضلے میں 14 فیصد تک خطرناک اجزاء ہو سکتے ہیں۔''

لیکن پاکستانی حکومت نے ان فضلات کو قبول کیوں کیا؟ اس کے جواب میں سینیٹر مہمند کہتے ہیں کہ حکام کے پاس ان درآمدات کا ریکارڈ موجود ہے اور اس معاملے کی تحقیقات کی جائیں گی۔

کمیٹی کے ایک دیگر رکن سینیٹر تاج حیدر نے بھی ڈی ڈبلیو کو تصدیق کی کہ پاکستان ترقی یافتہ ممالک سے خطرناک فضلہ وصول کرنے والا ملک رہا ہے۔

تاہم پارلیمانی کمیٹی کو اس بارے میں تفصیلی معلومات نہیں دی گئیں کہ پاکستان میں کس قسم کا خطرناک فضلہ آرہا ہے۔

خطرناک فضلہ کی ریگولیٹری حکام کے ذریعہ ایسے درج مواد کے طور پر درجہ بند کی جاتی ہے جو غیر متعین ذرائع سے نکلتا ہے یا اس میں رد شدہ کیمیائی مصنوعات شامل ہوتی ہیں۔ خطرناک فضلہ کی ایک اور خاصیت یہ ہے کہ اسے عام طریقوں سے ٹھکانے نہیں لگایا جا سکتا۔

Medizinischer Müll Corona-Pandemie
تصویر: Aditya Irawan/NurPhoto/imago images

پاکستان میں کچرا کیسے پہنچ رہا ہے؟

ماحولیاتی تبدیلی کی وزارت کے ایک سینیئر اہلکار سید مجتبیٰ حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان خطرناک فضلہ کی سرحد پار نقل و حرکت کے کنٹرول سے متعلق باسل کنونشن کا دستخط کنندہ ہے، جو اس کو ٹھکانے لگانے اور درآمد کرنے پر پابندی لگاتا ہے۔ لیکن بعض اوقات عام فضلہ خطرناک فضلہ کے ساتھ مل جاتا ہے، مثال کے طور پر پلاسٹک کے فضلے میں طبی فضلہ بھی شامل ہو سکتا ہے۔

مجتبیٰ حسین کا کہنا تھا،"سن2019 میں، پلاسٹک کے فضلے کے 624 کنٹینرز جو ہم نے امریکہ سے درآمد کیے تھے وہ آلودہ تھے۔ جس کی ہم نے باقاعدہ شکایت درج کرائی۔"

وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے ایک اہلکار ضیغم عباس نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کے پاس اکثر خطرناک فضلے کو پھینکنے کے لیے کافی جگہیں نہیں ہوتیں اور اسے ری سائیکل کرنا ان کے لیے مہنگا پڑ سکتا ہے۔ دوسری طرف، پاکستان جیسے ممالک کو عام فضلہ جیسے کمپریسر اسکریپ، ایلومینیم اسکریپ، پلاسٹک اسکریپ اور لیڈ اسکریپ کی ضرورت ہوتی ہے جو پنکھے، کیبلز، موٹرز، فائبر، کھڑکیاں اور دروازے جیسی اشیاء تیار کرنے کے لیے خام مال کے طور پر کام کرتے ہیں۔

ضیغم عباس نے کچرے کی درآمد سے متعلق قوانین میں خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا۔"ایک زمرہ ہے جسے 'دیگر اشیاء' کہا جاتا ہے، جس کے تحت فضلہ برآمد کرنے والے ممالک یہ اعلان کرنے کے پابند نہیں ہیں کہ کیا بھیجا جا رہا ہے۔"

مجتبیٰ حسین نے بتایاکہ حکومت پاکستان نے 2019 میں جنیوا، سوئٹزرلینڈ میں 'پارٹیز کی کانفرنس ٹو باسل کنونشن' میں یہ مسئلہ اٹھایا تھا۔ اور کہا تھا کہ''یہ فضلہ ماحول کے لیے خطرناک ہے کیونکہ یہ مٹی اور پانی کو آلودہ کرتا ہے، جبکہ اسے جلانے سے فضائی آلودگی ہوتی ہے۔''

سرکاری اہلکار نے ڈی ڈبلیو کو مضر صحت فضلہ اشیاء کی فہرست فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔

سندھ حکومت کے ایک صوبائی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان کے پاس عام کچرے کو خطرناک فضلہ سے الگ کرنے کی ٹیکنالوجی نہیں ہے، اس لیے خطرناک کچرے کی صحیح مقدار کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سرکاری افسران اور پرائیویٹ ری سائیکلنگ کمپنیوں میں بدعنوانی کے سبب بیرونی ممالک کو پاکستان میں نقصان دہ فضلہ ڈمپ کرنے کی اجازت مل جاتی ہے۔

DW News Videostill | Indien und Einmalplastik
تصویر: Manira Chaudhary/DW

حفاظتی اقدامات کا فقدان

کراچی میں کچرے کے نظم و نسق (ویسٹ مینجمنٹ) سے وابستہ ایک کمپنی کے سی ای او احمد شبّرنے کہا کہ چین کی طرف سے خطرناک فضلہ کی درآمد پر پابندی نے ترقی یافتہ ممالک کو اسے پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک بھیجنے پر مجبور کیا ہے۔

شبّر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ ایک انتہائی تشویشناک بات ہے کیونکہ ہمارے پاس اس طرح کے کچرے کو پھینکنے کے لیے کوئی موثر حفاظتی پروٹوکول نہیں ہے۔''

انہوں نے مزید کہا کہ ''پاکستان میں اس طرح کے کچرے کو پھینکنے کے لیے کوئی سائنسی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم فضلے کو جلا کر یا دریاؤں میں پھینک کر زمینی پانی کو آلودہ کر کے فضائی آلودگی پیدا کر رہے ہیں۔''

مغربی صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ایک سیاست دان یاسمین لہری نے کہا کہ سرکاری حکام نے اعتراف کیا ہے کہ عام کچرے میں 14 فیصد تک فضلہ خطرناک ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا، ''اگر(امریکہ سے)624 فضلہ کنٹینرز میں سے ہر ایک کا وزن 10 سے 15 ٹن تک ہے، تو ہمیں 1,000 ٹن سے زیادہ خطرناک فضلہ ملا ہے۔''

لہری نے کہا کہ پاکستان خود ہر سال تقریباً 30 ملین ٹن میونسپل فضلہ پیدا کرتا ہے۔ ''ہم اپنے فضلے سے خود نمٹ نہیں سکتے اور حکومت نجی پارٹیوں کو مزید فضلہ درآمد کرنے کے لیے پرمٹ جاری کر رہی ہے۔''

Symbolbild Türkei Frauen Arbeit Arbeiterinnen
تصویر: Mustafa Ciftci/AA/picture alliance

نئی پالیسی کی ضرورت

اسلام آباد کی رکن پارلیمان کشور زہرہ نے افسوس کا اظہار کیا کہ کسی پاکستانی حکومت نے ماحولیاتی مسائل پر کبھی توجہ نہیں دی۔

گزشتہ چند سالوں میں ملک میں کئی بیماریوں کے پھیلنے کا حوالہ دیتے ہوئے زہرہ کہتی ہیں کہ ان کا تعلق بڑے شہروں اور قصبوں کے قریب کے علاقوں میں خطرناک فضلہ کے ڈمپنگ سے ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا ''ہمیں اس وقت تک مزید فضلہ درآمد نہیں کرنا چاہیے جب تک کہ ہمیں کچرے کو الگ کرنے کی ٹیکنالوجی حاصل نہ ہو جائے۔ اگر دوسرے ممالک اپنا فضلہ ہمارے لیے درآمد کرنا چاہتے ہیں، تو انہیں اسے 'غیر مضر فضلہ' قرار دینا چاہیے۔''

وزارت موسمیاتی تبدیلی کے اہلکار سید مجتبیٰ حسین نے بتایا کہ وفاقی کابینہ نے 28 جون کو خطرناک فضلہ کے انتظام کی قومی پالیسی 2022 کی منظوری دی تھی، انہوں نے مزید کہا کہ یہ پالیسی درآمد شدہ خطرناک فضلہ کے مسئلے کو حل کرے گی۔

ایس خان (اسلام آباد)/ ج ا/ ص ز

پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کےنتائج سنگین ہیں، شیری رحمان

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں