1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہنیپال

اب نیپال کو بھی اقتصادی بحران کا خوف ستا رہا ہے

12 اپریل 2022

نیپال میں بھی سری لنکا جیسے اقتصادی بحران کا خوف پیدا ہورہا ہے۔ حکومت نیپال نے اپنا خرچ کم کرنے کے لیے کار، سونا اور کاسمیٹکس جیسی مصنوعات کی درآمدات گھٹا کر نصف کردی ہے۔

https://p.dw.com/p/49oO1
Sher Bahadur Deuba | Premierminister von Nepal
وزیر اعظم شیر بہادر دیوباتصویر: Prakash Singh/AFP/Getty Images

نیپال کے غیرملکی زرمبادلہ کا ذخیرہ کم ہوکر تقریباً نصف رہ جانے کے بعد حکومت نے کار، سونا اور کاسمیٹکس کی درآمدات پر سختی کردی ہے۔ ملک کے سینٹرل بینک کے ایک عہدیدار نے پیر کے روز بتایا کہ یہ فیصلہ سینٹرل بینک کے گورنر کو معطل کرنے اور ان کے نائب کو عبوری سربراہ بنانے کے بعد کیا گیا ہے۔

ہمالیائی مملکت نیپال کو بھی اسی طرح اقتصادی مار جھیلنی پڑی ہے جس کا سامنا سری لنکا کو کرنا پڑا۔ سیاحت پر منحصر اس کی معیشت کورونا وبا کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی اور اس کا غیر ملکی زرمبادلہ کا ذخیرہ تقریباً نصف رہ گیا۔

'غیر ضروری اشیاء' کی درآمدات پر روک

نیپال راشٹر بینک (این آر بی) کے نائب ترجمان نارائن پرساد پوکھریال نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخیرے پر کافی دباو ہے۔ "این آر بی کو لگتا ہے کہ چونکہ ملک کا غیر ملکی زرمبادلہ کا ذخیرہ کافی دباو میں ہے اس لیے ضروری اشیاء کی فراہمی کو متاثر کیے بغیر غیر ضروری چیزوں کی درآمدات پر لگام کسنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔"

انہوں نے یہ تو نہیں بتایا کہ کن اشیاء کی درآمدات پر پابندی لگائی جارہی ہے لیکن کہا کہ درآمد کنندگان کو 50 ''آسائشی اشیا" کی درآمد کے لیے مکمل ادائیگی کے بعد ہی اجازت دی جائے گی۔ انہوں نے کہا،"ہم نے ان اشیاء کی درآمدات کے بارے میں نئے ضابطوں سے تمام کسٹم پوائنٹس کو مطلع کردیا ہے۔یہ درآمدات پر پابندی نہیں ہے بلکہ ان کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے۔"

Indien | Neu Delhi | Sher Bahadur Deuba trifft Narendra Modi
تصویر: Naveen Sharma/ZUMA Wire/IMAGO

سینٹرل بینک کے گورنر کی معطلی کا سبب کیا ہے؟

نیپال کی وزارت خزانہ نے یہ واضح نہیں کیا کہ این آر بی کے گورنر مہاپرساد ادھیکاری کو جمعے کے روز معطل کیوں کیا گیا تاہم کہا کہ ایک حکومتی پینل معاملے کی تفتیش کرے گا۔

حالانکہ ایک حکومتی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گورنر ادھیکاری پر حساس مالیاتی اطلاعات میڈیا میں لیک کرنے کے الزامات تھے۔

ادھیکاری نے اس الزام پر فی الحال کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ روئٹرز نے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا موبائل فون سوئچ آف ملا۔

نیپال کی سیاحت مشکلات سے دوچار

نیپال میں سیاحت کی صنعت دوبارہ راستے پر واپس لوٹنے کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔ کووڈ انیس کی وبا کے دوران پوری صنعت بند ہوگئی تھی۔اس دوران نیپال کا مجموعی غیر ملکی زرمبادلہ کا ذخیرہ گزشتہ برس جولائی کے وسط کی سطح سے 17فیصد گر کر فروری کے وسط میں 9.75 ارب ڈالر رہ گیا۔

نیپالی حکام کا کہناہے کہ غیر ملکی زرمبادلہ کا موجودہ ذخیرہ 29ملین آبادی والے اس ملک میں اگلے چھ ماہ تک درآمدات کے لیے کافی ہوگا۔ خیال رہے کہ بھارت اور چین دونوں کی نیپال کو اپنے زیادہ سے زیادہ اثر میں لینے کی کوشش کررہے ہیں۔

سینٹرل بینک کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ جولائی کے وسط سے فروری کے وسط کے درمیان بیرونی ملکوں سے آمد میں 5.8فیصد کی گراوٹ آئی اور یہ 4.53ارب ڈالر رہ گئی۔گزشتہ جولائی میں شروع ہونے والے روا ں مالی سال کے پہلے سات مہینوں میں تجارتی خسارہ 2.07ارب ڈالر رہا جب کہ اسی مدت میں گزشتہ مالی سال کے دوران یہ خسارہ 81.76کروڑ ڈالر تھا۔

Nepal, Kathmandu | Protest gegen 500 Millionen Dollar US-Infrastrukturzuschuss
تصویر: Niranjan Shrestha/AP/picture alliance

اپوزیشن کی نکتہ چینی

اپوزیشن جماعتوں نے وزیر اعظم شیر بہادر دیوبا کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کی ہے۔ انہوں نے ایسے وقت میں جب ملک کی اقتصادی حالت کمزور ہے، این آر بی کے گورنر کو معطل کرنے کے فیصلے کو غلط قرار دیا۔

اپوزیشن کمیونسٹ یونیفائیڈ مارکسسٹ لیننسٹ پارٹی کے ایک سینیئر رکن پارلیمان سریندر پانڈے کا کہنا تھا،"وہ اچھا کام کررہے تھے، اور جب ملک کے اقتصادی اشارے اچھے نہیں ہیں، انہیں معطل کر دیا جانا ایک غلط فیصلہ ہے۔"

ایشیائی ترقیاتی بینک نے اس ماہ کے اوائل میں کہا تھا کہ نیپال پر قرض بڑھ کر اس کی جی ڈی پی کا 41فیصد ہوگیا ہے۔ سن 2016سے سن 2019کے درمیان یہ قرض اوسطاً 25.1 فیصد رہا تھا لیکن وبا کے دوران ہونے والے اخراجات کی وجہ سے اس میں اضافہ ہوا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے مزید کہا ہے کہ رواں مالی سال میں نیپال کے قرض میں جی ڈی پی کے 9.7فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے جوگزشتہ برس 8فیصد تھا۔

سری لنکا کی حکومت او روہاں کے عوام کے لیے یہ بحران کتنا بڑا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت نے باضابطہ تسلیم کیا ہے کہ ملک کی آمدن کے ہر 100امریکی ڈالر پر اسے 119ڈالر کا قرض ادا کرنا ہے۔

 ج ا/ ص ز  (روئٹرز)