کیا ممکنہ سیلابی صورتحال سے نمٹنے کی تیاریاں کر لی گئی ہیں؟
13 جون 2016محکمہ موسمیات کے مطابق اس سال ملک بھر میں ہونے والی مون سون کی بارشیں معمول کی بارشوں کی نسبت 10 سے 20 فی صد زیادہ ہوں گی۔ جبکہ سندھ اور پنجاب کے بعض علاقوں میں تو مون سون کی بارشیں پچھلے سال کی بارشوں کی نسبت 40 فی صد زیادہ ہونے کا امکان ہے۔
ایک خصوصی مراسلے میں محکمہ موسمیات نے حکومت کو یہ اطلاع بھی دی ہے کہ اس سال پنجاب، خیبر پختونخوا، سندھ ، آزاد کشمیر اور شمال مشرقی بلوچستان میں معمول سے زیادہ بارشیں ہوں گی۔ مراسلے کے مطابق بڑے شہروں میں فلش فلڈنگ اور بڑے دریاوں میں سلاب آنے کا خطرہ ہے جبکہ کے پی کے کے بالائی علاقوں اور گلگت بلتستان کے علاقوں میں لینڈ سلائڈنگ ہونے اور گلیشئر پگھلنے سے بھی سیلابی صورتحال پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔
محکمہ موسمیات پنجاب کے چیف میٹرولوجسٹ محمد ریاض نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ احتیاط سے بین الاقوامی اصولوں کے مطابق تیار کی جانے والی اس وارننگ کے درست ہونے کے امکانات 80 فی صد کے قریب ہیں۔ان کے بقول اس مرتبہ مون سون سیزن کا دورانیہ بھی زیادہ ہو گا اور 15 جون سے شروع ہونے والی بارشوں کا سلسلہ ستمبر کے مہینے تک جائے گا۔
اس وارننگ کے جاری ہونے کے بعد وزیراعظم ہاوس اور قدرتی آفات سے نمٹنے والے قومی ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے تمام صوبوں، کشمیر اور گلگت بلتستان کے حکام کو سیلاب اور طوفانی بارشوں کے نقصانات سے بچنے کے لیے پیشگی اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ادھر اسلام آباد میں پلاننگ اور ڈیویلپمنٹ کے وفاقی وزیر احسن اقبال کی زیر صدارت پیر کے روز ایک اہم اجلاس ہوا، جس میں سیلاب کے ممکنہ نقصانات سے بچنے کے لیے حفاظتی انتظامات کو تیزی سے مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی۔
این ڈی ایم اے کے ایک سینئر اہلکار نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ادارہ مون سون کے انتظامات کے حوالے سے ایک قومی کانفرنس کا انعقاد کرکے ایک قومی منصوبہ بنا چکا ہے، جس پر کام جاری ہے۔ ان کے بقول حال ہی میں اس ادارے نے ایک سروے کرکے ملک بھر سے سیلابی کے ممکنہ خطرات کے پیش نظر ضروریات کی ایک فہرست بھی تیار کر لی گئی ہے۔ اور اس ضمن میں صوبوں کے تعاون سے حفاظتی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔
کے پی کے کی حکومت نے سیلابی خطرات کے پیش نظر اپنے سولہ شہروں کو حساس قرار دے دیا ہے اور متعلقہ ضلعوں کی انتظامیہ کے ذریعے حفاظتی انتظامات شروع کر دیے گئے ہیں۔
ادھر پنجاب میں قدرتی آفات سے نمٹنے والے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر جنرل جواد اکرم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حال ہی میں صوبہ پنجاب میں ایک سروے کرکے ایسے مقامات کی نشاندہی کر لی گئی ہے، جن کو ممکنہ سیلاب سے شدید نقصان پہنچنے کا احتمال ہو سکتا ہے۔ ان مقامات پر ترجیحی بنیادوں پر حفاطتی کام جاری ہے۔ جواد اکرم کے بقول مناسب تعداد میں کشتیوں، خیموں، خوراک اور ادویات کا بندوبست بھی کر لیا گیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ محکمہ موسمیات کی پشین گوئیاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ مخصوص معلومات دے سکیں گی، ان کے بقول 2014ء اور 2015ء میں محکمہ موسمیات نے کم بارشوں کی پشین گوئی کی تھی لیکن بارشیں بہت زیادہ ہوئی تھیں، "حکومت ایک حد تک ہی حفاظتی انتظامات کر سکتی ہے لیکن سیلاب کے حوالے سے تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ہوں گی۔ شہریوں کو چاہیے کہ بارشوں سے پہلے اپنے بجلی کے نظام، چھتوں کی صورتحال کا جائزہ لے لیں اور مون سون کے موسم میں بیماریوں سے بچنے کے لیئے آگاہی حاصل کر لیں۔"
بڑے شہروں کی ضلعی انتظامیہ کو بھی سیلابی صورتحال (فلش فلڈنگ) سے نمٹنے کے لیے انتظامات کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے جبکہ پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے بھی کام جاری ہے۔
ایک سوال کے جواب میں جواد اکرم نے بتایا کہ ورلڈ بنک اور کچھ یورپی ملکوں کے تعاون سے پنجاب حکومت سیلاب سے اکثر متاثر ہونے والے پنجاب کے علاقوں کے حوالے سے ایک اسٹڈی کروا رہی ہے، اس اسٹڈی کی تکمیل پر اگلے سال سے حکومت ایسے علاقوں کی انشورنس کروانے کا بھی سوچ رہی ہے، انشورنس کی صورت میں سیلابی علاقوں میں ہونے والے نقصانات کی بہتر تلافی ممکن ہو سکے گی۔ اسی طرح ہم سیلاب کے خطرات کے پیش نظر وولنرایبل ایریاز میں انفراسٹرکچر کی بہتری کے لیے بھی کوششیں کر رہے ہیں۔"
معروف تجزیہ نگار سلمان عابد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہر سال وفاقی اور صوبائی حکومتیں سیلاب سے پہلے اسی طرح کے دعوے کرتی ہیں اور ہر سال سیلاب کے نتیجے میں لوگوں کو بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے بقول مون سون آپریشن کے لیے اگر صوبائی حکومتیں بیوروکریسی پر انحصار کرنے کی بجائے، مقامی حکومتوں سے کام لیتیں تو اس کے نتائج زیادہ بہتر ہوتے۔
جنوبی پنجاب کے ایک کاشتکار مقبول عالم نے بتایا کہ عوام کو حفاظتی انتظامات کی خبروں سے غرض نہیں بلکہ ان کے نتیجہ خیز ہونے سے دلچسپی ہے، "مجھے ڈر ہے کہ حکومت اس سال بھی ہمارا سب کچھ بہہ جانے کے بعد معمولی امدادی رقم کا اعلان کر دے گی، سیلاب کے مسئلےکا کوئی مستقل حل ڈھونڈا جانا چاہیے۔‘‘