1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی سے کوئی فرق نہیں پڑتا؟

21 مارچ 2019

نیوزی لینڈ میں مساجد پر ہوئے حملوں پر جرمن سیاستدانوں کی طرف سے اور میڈیا پر کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/3FQvv
Nach Angriff auf Moscheen in Neuseeland -: Scott Morrison, Premierminister von Australien
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Himbrechts

 ڈی ڈبلیو کے  صحافی جعفر عبدالکریم کا سوال ہے کہ مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کی یہ کارروائی کیا جرمنی کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی؟

ڈی ڈبلیو سے وابستہ جعفر عبدالکریم اتوار کے دن برلن میں واقع نیوزی لینڈ کے سفارتخانے کے باہر موجود تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس دن صرف دو افراد ہی ان کے ساتھ تھے۔ یہ لوگ کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر جمعے کو ہوئے حملے میں ہلاک ہونے افراد کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے وہاں گئے تھے۔

جعفر کے بقول یہ صورتحال دیکھ کر ان کے ذہن میں کئی سوالات ابھرے، جن میں ایک یہ بھی تھا کہ کرائسٹ چرچ میں ہوئے حملوں پر جرمنی کا ردعمل اتنا کم کیوں ہے اور یہ کہ ان متاثرین کے ساتھ بڑے پیمانے پر اظہار یک جہتی کیوں نہیں کی گئی؟ جعفر لکھتے ہیں کہ غالباﹰ وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر درست ہی کہتے ہیں کہ اسلام جرمنی سے تعلق نہیں رکھتا۔ جعفر کے مطابق وہ کرائسٹ چرچ حملوں پر جرمنی کے ردعمل کو زیہوفر کے اسی بیان کے تناظر میں ہی سمجھ سکتے ہیں۔

جعفر لکھتے ہیں کہ عرب ممالک کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ جرمنی میں آباد مسلمانوں کا خود سے یہ سوال ہے کہ اگر کرائسٹ چرچ میں دہشت گردی کا یہ واقعہ کسی مسلمان نے سرانجام دیا ہوتا اور ہلاک شدگان مسلمان نہ ہوتے، تو کیا جرمن میڈیا اس دہشت گردی کے واقعے پر اسی طرح ردعمل ظاہر کرتا؟

جعفر اپنے اس کالم میں یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ کچھ صحافیوں نے اس حملہ آور کو دہشت گرد قرار دینے کو نظر انداز کیوں کیا؟ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گرد کا کوئی مخصوص مذہب ضرور ہوتا ہے۔ یہ دہشت گردانہ حملہ کچھ مختلف تھا۔ مسلمان خود متاثر ہوئے نہ کہ مبینہ مجرم۔

جعفر لکھتے ہیں کہ اس حملے کے بعد عالمی سیاستدانوں نے پیرس کی سڑکوں پر جمع ہو کر اس جرم کے خلاف مظاہرہ کیوں نہ کیا۔ جعفر نے لکھا کہ جب وہ اپنے پروگرام شباب ٹاک کی تیاری میں مصروف تھے تو ان کے ناظرین نے انہیں ایسے ہی سوالات ارسال کیے تاکہ وہ جواب دے سکیں۔ تاہم جعفر کا خود سے سوال ہے کہ جرمنی میں عوام کے ردعمل کا طریقہ وہی ہونا چاہیے، جو عرب ممالک میں بسنے والوں کا ہے؟ اگر متاثرین مسلمان نہ ہوں تو ردعمل شدید نہیں ہو گا اور یک جہتی نظر نہیں آئے گی؟

وہ لکھتے ہیں کہ اگر دہشت گرد مسلمان ہو گا تو لوگوں کی توجہ کا مرکز ایک مرتبہ پھر اسلام بن جائے گا۔ اس حملے میں حملہ آور ایک سفید فام ہے اور اس دہشت گردی کے لیے کسی خاص گروہ پر الزام نہیں دھرا گیا ہے۔ صرف یہ کہا گیا ہے کہ حملہ آور نے یہ کارروائی اکیلے ہی سر انجام دی ہے۔ جب کسی ایک کارروائی کو کسی ایک کمیونٹی سے نتھی کر دیا جاتا ہے تو صورتحال کچھ مختلف ہو جاتی ہے۔ کرائسٹ چرچ میں ہوئے حملوں کے بعد کسی بھی گروہ نے اس انتہا پسندی کے عمل سے خود کو الگ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے۔ سفید فام لوگوں کو یہ ڈر بھی نہیں ہے کہ اس دہشت گردی کے واقعے کے بعد اب ہوائی اڈوں پر ان کی چیکنگ سخت کر دی جائے گی۔

جرمنی میں مسلمان خوفزدہ ہیں

امریکا میں ہوئی ایک اسٹڈی کے مطابق امریکی میڈیا میں ایسے حملے کی زیادہ سرگرم طریقے سے رپورٹنگ کرتا ہے، جس میں مجرم مسلمان ہو۔ تاہم  اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ امریکا میں دائیں بازو کے انتہا پسند زیادہ حملوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ جرائم میں ملوث غیر مسلم افراد کے مقابلے میں مسلمانوں کے بارے میں رپورٹنگ کا تناسب 449 فیصد زیادہ ہے۔ اس بارے میں جرمنی میں کیا صورتحال ہے؟ اس بارے میں ابھی تک کوئی اعدادوشمار مرتب نہیں کیے گئے ہیں۔

کرائسٹ چرچ کے حملوں کے دو دن بعد ہی جرمنی میں کچھ میڈیا اداروں میں اس خونریز واقعے کے بارے میں کوئی شہ سرخی تک نظر نہیں آئی۔ جرمنی میں مسلمانوں کی آبادی پانچ ملین کے قریب ہے۔ جعفر لکھتے ہیں کہ گزشتہ جمعے وہ جرمنی کی ایک مسجد میں گئے اور نمازیوں سے نیوزی لینڈ میں ہوئے حملے پر ان کا ردعمل دریافت کیا۔ ان لوگوں نے بتایا کہ وہ خوفزدہ ہیں اور خود کو غیر محفوظ خیال کرتے ہیں۔

Zitattafel Jaafar Abdul-Karim Christchurch

جرمنی میں سالانہ بنیادوں پر اسلاموفوبیا کی وجہ سے ہونے والے حملوں کی تعداد سینکڑوں میں ہوتی ہے۔ ڈریسڈن کی ایک مسجد پر تو دھماکا خیز مواد سے حملہ بھی کیا جا چکا ہے۔ پارلیمان میں پیش کردہ اعدادوشمار کے مطابق سن دو ہزار اٹھارہ کے پہلے نو ماہ کے دوران اسلاموفوبیا سے جڑے 578 حملے رپورٹ ہوئے۔ ان حملوں کے ذمہ دار زیادہ تر دائیں بازو کے انتہا پسند ہی قرار دیے گئے۔

دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں

ایک باحجاب خاتون نے جعفر کو بتایا کہ وہ خوفزدہ ہے کہ جرمنی میں بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ ایسے خیال کا اظہار کرنے والی وہ واحد خاتون نہیں تھی۔ جعفر نے مزید لکھا کہ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سن دو ہزار نو میں ڈریسڈن کی ایک عدالت میں دائیں بازو کے ایک انتہا پسند نے مصری نژاد جرمن خاتون مروا الشیربینی کو چاقو کے وار کر کے ہلاک کر دیا تھا۔

جعفر نے مزید لکھا کہ وہ آئے روز یہ سنتے ہیں کہ قصوروار مسلمان ہیں کیونکہ ان کا مذہب جمہوری اقدار سے مطابقت نہیں رکھتا۔ جعفر کا اصرار ہے کہ وہ خود اس حق میں ہیں کہ لوگ اسلام پر بے شک تنقید کریں لیکن متاثرہ مسلمانوں کو ہمدردی کی ضرورت ہے۔

کرائسٹ چرچ کی مساجد میں یہ دہشت گردانہ کارروائیاں ایک ایسے وقت میں کی گئیں، جب لوگ وہاں عبادت کر رہے تھے۔ وہ معصوم تھے۔ مذہب اور عبادت کی آزادی انسان کا بنیادی حق ہے اور اس کا احترام کرنا چاہیے۔ یہ تمام مغربی ممالک کے قوانین کا بنیادی حصہ بھی ہے۔

جعفر کے مطابق اسلام اور اسلاموفوبیا کے مابین فرق سمجھنا بہت ضروری ہے۔ کرائسٹ چرچ میں مارے جانے والوں کا انتہاپسندانہ نظریات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ بالکل ایسے ہی جیسا کہ یورپی لوگ دائیں بازو کے کٹر نظریات اور مجرمان سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔

جعفر کے مطابق وہ یہ جاننے کی کوشش کرتے رہیں گے کہ کرائسٹ چرچ میں ہوئے ان حملوں پر جرمنی میں ردعمل اتنا کم کیوں تھا؟ کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ جغرافیائی لحاظ سے نیوزی لینڈ بہت دور ہے اوراس لیے متاثرین کے ساتھ یک جہتی کا عنصر نظر نہیں آیا؟

اگر ایسا کوئی واقعہ جرمنی یا یورپ میں ہو گا تو زیادہ ردعمل ظاہر کیا جائے گا کیونکہ اس ملک کے لوگ خود کو جرمن اور یورپی قرار دیتے ہیں۔ لیکن انسان تو انسان ہی ہے، چاہے اس کا رنگ، نسل اور مذہب مختلف ہی کیوں نہ ہو اور اس کا تعلق کسی خطے سے ہی کیوں نہ ہو۔

جعفر اختتام میں لکھتے ہیں کہ ایسا خطرہ ہے کہ پھر کوئی مسلم انتہا پسند دہشت گردانہ حملہ کرے۔ ان کے بقول ہمیں اس وقت بھی یہی یک جہتی دیکھانا ہو گی کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔

جعفرعبدالکریم، ع ب، ع ت