کیا لبنان بھی شام کی بحران کی لپیٹ میں آرہا ہے؟
25 مئی 2012لبنان میں بشارالاسد کے حق میں اور اس مخالفت میں ہونے والے مظاہروں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تنازعہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ ماہرین پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ شام کا بحران پڑوسی ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ لبنان میں شامی حکومت کی حمایت بھی پائی جاتی ہے اور دمشق حکام کے مخالفین بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ گزشتہ دنوں سنی اور علوی فرقوں کے مابین ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی ابتداء شمالی لبنان سے ہوئی تھی اور بعد میں اس کے شعلے دارالحکومت بیروت میں بھی بھڑکے۔ یورپی یونین کے مطالعہ برائے سلامتی مرکز کے روزبے پارسی لبنان میں شام کے اثر و رسوخ کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان دونوں ملکوں میں کافی قدریں مشترک ہیں۔ ’’یہ دونوں ممالک اور معاشرے ایک دوسرے سے کئی طرح سے مربوط ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک حصے میں کچھ ہو گا تو اس کا اثر دوسرے کونے میں بھی دکھائی دے گا۔‘‘
لبنان میں شام مخالفین اور حامیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں پر اقوام متحدہ کی جانب سے بھی تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ اس موقع پر سیکرٹری جنرل بان کی مون نے فریقین سے صبر و تحمل سے کام لینے کی اپیل کی تھی۔ روزبے پارسی نے کہا کہ لبنان کے حالات کو عراق سے تشبیہہ بھی دی جاسکتی ہے۔ یہاں بھی مختلف فرقوں اور مذاہب کے ماننے والوں کے مابین تناؤ موجود ہے۔ کیا شام کے بحران نے اس کشیدگی کو ہوا دی ہے؟ اس حوالے سے روزبے پارسی کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں لبنان میں مثبت رجحانات بھی موجود ہیں۔ ’’لبنان اپنے آس پاس کے ممالک سے الگ نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ اپنے معاملات ٹھیک کر لے تو دوسرے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں گے، دخل اندازی بہرحال پھر بھی جاری رہے گی۔‘‘
روزبے پارسی کے بقول ابھی حال ہی میں امریکا کے مشرق قریب سے متعلق امور کے نائب سیکرٹری جیفری فیلٹمین لبنان میں تھے اور اسی دوران نائب ایرانی صدر بھی بیروت میں موجود تھے۔ پارسی کہتے ہیں کہ دونوں طاقتیں ایک ہی طرح کا کھیل کھیل رہی ہیں۔ ایرانی اس وجہ سے لبنان میں دلچسپی لے رہے ہیں کیونکہ حکومت میں حزب اللہ کا زور ہے۔ جبکہ امریکی حزب اللہ کو حکومت سے باہر نکالنے اور کمزور کرنے کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں۔
Sabina Casagrande /ai/hk