1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا ورلڈ کپ کے میزبان قطر میں پریس واقعی آزاد ہے؟

19 نومبر 2022

فیفا ورلڈ کپ کا میزبان قطر ایک ایسا ملک ہونے کا دعوی کرتا ہے جہاں میڈیا ’بغیر مداخلت کے آزادانہ‘ کام کر سکتا ہے۔ تاہم ڈی ڈبلیو کے فیکٹ چیک کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/4JlvQ
Qatar Pressefreiheit
تصویر: KARIM JAAFAR/AFP/Getty Images

ایک صحافی ڈنمارک ٹیلی ویژن پر لائیو رپورٹنگ کر رہا ہے، تبھی ایک گولف کارٹ اس کی جانب بڑھتی ہے اور سکیورٹی اہلکار کیمرے کے سامنے اپنا ہاتھ رکھ دیتے ہیں۔ ظاہر ہے تصویر سیاہ ہو جاتی ہے۔ اس پر ٹی وی رپورٹر کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے، ’’مسٹر، آپ نے پوری دنیا کو یہاں آنے کی دعوت دی ہے۔ ہم اس کی فلم کیوں نہیں بنا سکتے؟ یہ تو ایک عوامی جگہ ہے۔‘‘

فُٹ بال اسٹیڈیم میں الکوحل بیئر کی فروخت پر پابندی

چند روز قبل قطر میں ہونے والے ورلڈ کی رپورٹنگ کے دوران اس طرح کا سلوک ڈينسش رپورٹر رسموس ٹینٹ ہولڈ  اور ٹی وی ٹو کی کیمرہ ٹیم کے ساتھ پیش آیا۔ اس واقعے کے فوٹیج میں مزید دیکھا جا سکتا ہے کہ حکام انہیں کیمرہ توڑنے کی بھی دھمکی دیتے ہیں، جب کہ رپورٹر ٹینٹ ہولڈ حکام کو ٹی وی ٹو کے لیے میڈیا ایکريڈیشن کا پاس بطور ثبوت پیش کر رہے ہیں۔

 بعد ازاں قطری حکام نے اس واقعے پر معافی طلب کی۔ تاہم اس کے قطع نظر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قطر  میں میڈیا ورلڈ کپ کے دوران آزادانہ رپورٹنگ کر سکتا ہے؟

حکومت کا دعوی یہ ہے کہ قطر  میں میڈیا آزاد ہے۔ ورلڈ کپ سے متعلق ایک قومی کمیٹی نے اپنی ایک حالیہ ٹویٹ میں بھی یہی بات کہی ہے: ’’ہزاروں صحافی قطر سے بغیر مداخلت کے ہر برس آزادانہ رپورٹنگ کرتے ہیں۔‘‘

فٹبال ورلڈ کپ میں سکیورٹی کے لیے قطر کا انحصار پاکستانی فوج پر ہے

ڈی ڈبلیو کے فیکٹ چيک سے دعوی غلط ثابت ہوتا ہے

ڈی ڈبلیو کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ قطری حکومت میڈیا کوریج میں مداخلت کرتی ہے اور اس حوالے سے جو قوانین ہیں، وہ بذات خود صحافیوں کی کوریج کی حدود طے کرتے ہیں۔

اس میں سن 1979 کا وہ پریس قانون بھی شامل ہے، جس کے تحت ملک کے حکمران امیر پر تنقید کی پابندی ہے۔ اس کے علاوہ  ’’کوئی ایسی چیز جو حکومت کی حفاظت کو خطرے میں ڈال سکتی ہو‘‘ سمیت دیگر ایسے تمام موضوعات کی کوریج پر بھی پابندی عائد ہے۔

اس حوالے سے انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس نے سن 2020 کے اس اس تعزیری ضابطے پر نظر ثانی کی جانب بھی اشارہ کیا ہے، جس کے تحت ’’جعلی خبروں یا افواہوں کو پھیلانے پر بھاری جرمانے اور پانچ برس تک قید کی سزا‘‘ کی بات کہی گئی تھی۔ ٹریڈ انجمن کی پامیلا مورینیری نے اس کی تفاصیل بیان کی ہیں۔

فیفا ورلڈ کپ کے لیے ایکریڈیشن اور اجازت نامہ حاصل کرنے کے لیے صحافیوں پر جو شرائط عائد کی گئی ہیں، اس کے مطابق بھی ’رہائشی املاک، نجی کاروبار اور صنعتی زون‘ میں فلم بندی کرنے یا تصویر نہ لینے سے اتفاق کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ سرکاری عمارتوں، ہسپتال اور مذہبی مقامات سے متعلق بھی صحافیوں کے لیے رپورٹنگ کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

Qatar Pressefreiheit
قطر اس زمرے میں مشرق وسطیٰ کے اپنے بیشتر پڑوسی ملکوں سے بہتر مقام رکھتا ہے۔ جوناتھن ڈیگر  کا کہنا ہے کہ یہ اس بات کی عکاس ہے کہ قطر میں کوئی صحافی طویل مدت تک کبھی جیل میں نہیں ڈالا گیا اور ریاست میں کچھ حد تک میڈیا کی تکثیریت بھی موجود ہےتصویر: KIRILL KUDRYAVTSEV/AFP/Getty Images

پریس کی آزادی کے لیے کام کرنے والے گروپ ’رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ (آر ایس ایف) نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس طرح کی شرائط واضح طور پر ان ’’حساس علاقوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں جہاں سے ماضی میں صحافیوں نے مہاجر مزدوروں کے حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق رپورٹ کیا ہے۔‘‘

در اصل رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے اپنے 2022 پریس فریڈم کی انڈیکس میں قطر کو 180 ممالک میں سے 119 مقام پر رکھا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں آر ایس ایف ڈیسک کے سربراہ جوناتھن ڈیگر کا کہنا ہے، ’’ہم اعتماد سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ قطر میں پریس کی آزادی محفوظ نہیں ہے اور نہ ہی اس کو تحفظ حاصل ہے۔‘‘

تاہم قطر اس زمرے میں مشرق وسطیٰ کے اپنے بیشتر پڑوسی ملکوں سے بہتر مقام رکھتا ہے۔ جوناتھن ڈیگر  کا کہنا ہے کہ یہ اس بات کی عکاس ہے کہ قطر میں کوئی صحافی طویل مدت تک کبھی جیل میں نہیں ڈالا گیا اور ریاست میں کچھ حد تک میڈیا کی تکثیریت بھی موجود ہے۔

تاہم ان کا کہنا ہے، ’’کسی بھی طرح سے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قطر میں پریس کی آزادی کو 'اچھا' قرار دیا جا سکتا ہے۔‘‘

'رپورٹنگ کرنے پر گرفتاریاں'

مورینیئر کا کہنا ہے کہ قطر میں ’’صحافی میچوں سے آگے کی رپورٹنگ بھی کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے اس طرح کے حالات کے بارے میں پہلے ہی سن رکھا ہے کہ مہاجر کارکنوں کے بارے میں رپورٹنگ کرنے کی وجہ سے صحافیوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے ہم کافی فکر مند بھی ہیں۔‘‘

مثال کے طور پر سن 2021 کے اواخر میں ناروے کے دو صحافیوں کو ورلڈ کپ کی تعمیر کے دوران کام کرنے والے تارکین وطن کے حالات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا تھا۔

اسی طرح کے ایک اور واقعے میں جرمن پبلک براڈ کاسٹر کے لیے کام کرنے والے صحافی فلوریان باؤر سے پوچھ گچھ کی گئی تھی، جو ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے قطر میں کام کر رہے ہیں۔

سن 2015 میں جب قطری حکام نے میڈیا کوریج کی اجازت دینے سے انکار کر دیا، تو بہرحال جرمن ٹیم آگے بڑھی اور ایک صنعتی زون میں فلم بندی شروع کر دی، جس میں مزدوروں نے جرمن ٹیم کو اپنی رہائش گاہ پر بھی آنے کی دعوت دی تھی۔ تاہم جب قطر کی انٹیلیجنس سروس کو پتہ چلا تو انہیں حراست میں لے لیا گیا۔

باؤر نے بتایا، ’’ہم سے 14 گھنٹے سے زیادہ پوچھ گچھ کی گئی تھی، پبلک پراسیکیوٹر کے سامنے لایا گیا اور پانچ دن تک ملک چھوڑنے کی اجازت نہیں دی گئی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’بالآخر جرمن سفارت خانے کو قطر کے وزیر خارجہ کو اس بات کے لیے قائل کرنا پڑا کہ وہ ہمیں ملک چھوڑنے کی اجازت دے دیں۔‘‘

 گزشتہ ستمبر میں بھی باؤر کو ایک بار پھر سے جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کیمرہ ٹیم کے ساتھ ایک صنعتی علاقے میں گئے تھے جب انہوں نے دیکھا کہ قطر کی انٹیلیجنس سروس کے ایجنٹ ان کا تعاقب کر رہے ہیں۔ ’’اسی کو تو میں ڈرانا دھمکانا کہتا ہوں۔‘‘

ورلڈ کپ کے بعد کے خدشات

ڈنمارک کے ٹی وی رپورٹر ٹینٹ ہولڈ نے واقعے کے چند روز بعد اسکائی نیوز کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ بالآخر کیمرے کا عملہ محفوظ رہا اور انہیں کام کرنے اور آگے بڑھنے کی اجازت بھی دی گئی۔

حالانکہ انہیں اس بات کی ہرگز توقع نہیں تھی کہ اس طرح کی غیر متنازعہ ریکارڈنگ کے دوران انہیں اس طرح کے واقعے کا سامنا ہو گا۔ انہوں نے ٹورنامنٹ کے ختم ہونے کے بعد صحافیوں کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’میرے لیے، اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ قطر اس وقت کیسا ہو گا، جب وہاں ورلڈ کپ نہیں ہو رہا ہو گا۔‘‘

ڈیگر نے بھی اس حوالے سے بڑے مضمرات پر توجہ دلائی اور  کہا، ’’گرچہ ہم اس بات سے متفق نہیں ہیں کہ صحافی قطر میں بغیر کسی مداخلت کے کام کر سکتے ہیں، تاہم ہم یہ تسلیم کر سکتے ہیں کہ اس سمت میں کچھ اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔ہمیں امید ہے کہ اس طرح کے اقدامات کیے جاتے رہیں گے اور ورلڈ کپ کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔‘‘

ص ز/ش ح  (جوشا ویبر/ سونیا اینجلیکا ڈین)

قطر میں فیفا ورلڈ کپ کی بھاری قیمت