1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا سوچا تھا کیا نکلا؟

30 اگست 2023

رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے کچھ عرصہ تک میاں اور بیوی یہ سوچتے ہیں کہ انہوں نے اپنے آئیڈیل کو پا لیا پھر رفتہ رفتہ بے جا توقعات جب شیشوں کی مانند ٹوٹتی ہیں تو دونوں غمگین ہو جاتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4Vk8F
DW Urdu, Tabindah Khalid, Blogger
تصویر: Privat

رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے ساتھ ہی انسان کی زندگی میں ایک نئے باب کا آغاز ہوجاتا ہے۔ لڑکی دل میں ارمان سجائے اپنے شوہر کے گھر قدم رکھتی ہے اور شوہر بڑی عقیدت کے ساتھ اپنی زوجہ کی ہر خواہش پوری کرنے کا عزم رکھتا ہے۔ کچھ عرصہ تک وہ سوچتے ہیں کہ انہوں نے اپنے'' آئیڈیل'' کو پا لیا ہے اور پھر رفتہ رفتہ بے جا توقعات جب شیشوں کی مانند ٹوٹتی ہیں تو دونوں غمگین ہو جاتے ہیں۔ شادی سے قبل لڑکی اگر یہ تصور کرے کہ اسے اسکے خوابوں کا شہزادہ تو مل گیا ہے لہٰذا اب ہم جب چاہیں گے ہوٹلنگ کرینگے، موویز دیکھیں گے۔ ہر تہوار پر برانڈڈ اشیا مجھے ملا کریں گی۔   کم از کم میں تو گرمی میں روٹیاں نہیں بناؤں گی، گھر کا سارا کام کاج ملازمین ہی کریں گے کیونکہ میاں صاحب کا یہ کہنا ہے کہ وہ مجھے رانی بنا کر رکھیں گے وغیرہ وغیرہ۔ لڑکا اس زعم میں مبتلا رہتا ہے کہ اب بیوی آئے گی تو وہ ہر قدم میں میرا ساتھ دے گی، اپنے میکے کو خیرباد کہہ کر میرے گھر کو جنت بنا دے گی، میری بہنوں کے ساتھ سہیلیوں جیسا سلوک ہوگا، ساری امور خانہ داری کا بوجھ اپنے کندھوں پر لے لے گی جبکہ حقیقت میں سب کچھ برعکس ہو جاتا ہے۔

جن لڑکوں کی تنخواہ قلیل ہوتی ہے اور ان کے سسرالی رشتہ دار زیادہ ہوتے ہیں وہ بہت پریشان حال دکھائی دیتے ہیں مثال کے طور پر اگر بیگم کی پانچ یا چھ بہنیں ہیں اور ان میں سے کسی نہ کسی کے بچے کی سالگرہ یا رسم عقیقہ ہو لیکن کمپرومائز کی بجائے بیگم کی جانب سے ہر بارمہنگے گفٹ کی ڈیمانڈ شوہر کے وسائل کی چادر کے بارڈر کو عبور کر رہی ہوگی، تو یہ صورتحال اس کے لیے پریشان کن ہوگی۔ چپقلش تو ایک سائیڈ پر رہی دوسروں کے ساتھ موازنہ سکون غارت کرنے کا سب بڑا فیکٹر بنتا ہے کہ فلاں بہن کا شوہر اس برانڈ کا تحفہ دیتا ہے یا وہ میرے میکے والوں کو اتنے ہزار کی شاپنگ کرواتا ہے، ایک بہن کا شوہر سیرو تفریح کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے تو میرا شوہر ایسا کیوں نہیں؟ یعنی وہ تمام بہنوں کے شوہروں کی خوبیاں اپنے ایک شوہر کے اندر دیکھنا چاہتی ہے۔ یہ بھی مشاہدے میں آ رہا ہے کہ چند خواتین وٹس ایپ پر اپنی سہیلیوں، کزنز کے اسٹیٹس چیک کرکے آگ بگولا ہو جاتی ہیں اور یہیں سے مسائل بڑھتے ہیں۔ ان کے پاس نعمتیں ہیں تو ہمارے پاس کیوں نہیں۔

حد سے زیادہ توقعات ہی معاشرے میں رشتوں میں رخنہ اندازی کا سبب بن رہی ہیں۔ اونچی توقعات ایک تیز دھار والی تلوار ہیں جو رشتوں کو جڑوں سے گاجر مولی کی طرح کاٹ کر پھینک دیتی ہیں۔ خدارا تعلقات کو اگر بہتر بنانا ہے تو دوسروں کے ساتھ موازنہ کرنا بند کیجئے۔ شوہر کے ساتھ بغاوت نہیں کرنی بلکہ سمجھ داری اور کفایت شعاری کے ساتھ چیزوں کو ہینڈل کرنا سیکھیں۔ ہم اس ''کمال'' کو ''دبنا'' نہیں کہیں گے بلکہ یہ خواتین کی تربیت کی عکاسی کرے گا۔ قابلِ غور بات ہے کہ پیسوں کی کمی و زیادتی دونوں ہی لڑائی جھگڑا پیدا کرتی ہیں۔ بیوی وہی ہے جو کم وسائل یا خالی جیب میں پہچانی جائے۔ سماج میں بعض خواتین کی جانب سے یہ گمان بھی کیا جاتا ہے کہ شادی کے چند سالوں میں میری تمام خواہشات پوری ہو جائیں گی۔ ظاہر ہے جب دونوں اتنے عظیم بندھن میں بندھے ہیں وہ پوری زندگی کے لیے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی خواہشات تو وقت گزرنے کے ساتھ پوری ہو ہی جاتی ہیں۔ ہر وقت شکایت اور مستقل طور پر غیر اطمینان بخش رویہ ہمیں اپنے آپ سے خوش یا مطمئن ہونے نہیں دیتا۔ اس لیے زبان سے شکریہ ادا کریں۔ کیا آ پ کو معلوم ہے کہ کن نا مساعد حالات سے گزر کر آپ کے شوہر آپ کو ضروریاتِ زندگی کا سامان پہنچاتے ہیں۔ سو قدر کیجئے۔ شکریہ ادا کرنا سب سے اہم سرگرمی ہے۔ اگر ہم حق جتانے لگیں ''جی یہ تو ہمارا حق ہے۔ شوہرِ نامدار اپنے بچوں کا خرچہ اٹھا رہے ہیں تو کیا نئی آفت گئی۔" یاد رکھیے کہ بدزبانی اور انانیت دیمک کی مانند رشتوں کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ گھر ذہنی و قلبی سکون کی آماجگاہ ہوتا ہے، اس لیے بہتر ہے کہ اپنے شریکِ حیات کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں۔ بعض خواتین شوہر کے گھر آتے ہی سر پکڑ کر بیٹھ جاتی ہیں اس بات کا پُرزور تقاضا شروع کر دیتی ہیں کہ اب وہ بچوں کوسنبھالیں یا باہر لے جائیں۔ ایسی باتیں بھی ایک دوسرے سے بیزاری کا سبب بنتی ہیں۔ باہمی چپقلش کے بعد پھر دونوں ایک دوسرے کے انتخاب کے حوالے سے یہ سوچتے ہیں کہ کیا سوچا تھا اور کیا نکلا؟

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔