1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا سعودی عرب میں فوجی بھیجنا دانشمندانہ فیصلہ ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
16 فروری 2018

پاکستانی فوجی دستوں کو سعودی عرب بھیجنے کے فیصلے پر ملک کے کئی سیاست دان اور تجزیہ نگار حکومت پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ کئی حلقے اس اقدام کو غیر دانشمندانہ اور پارلیمنٹ کے فیصلوں کی توہین قرار دے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2spEA
Pakistan Militär Patrouille Peschawar
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Arbab

پاکستانی آرمی کے شعبہ ء تعلقات عامہ کی طرف سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان کی فوجی سعودی عرب بھیجے جا رہے ہیں اور یہ کہ یہ فوجی تربیتی اور مشاورتی خدمات سر انجام دیں گے۔
پاکستانی سینیٹ نے اس فیصلے پر حکومت سے وضاحت طلب کر لی ہے اور ایوانِ بالا کے چیئرمین رضا ربانی نے وزیرِ دفاع خرم دستگیر کو ایوان میں طلب کر لیا ہے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ پارلیمنٹ کی قراردادوں کی نفی ہےاور ایسا کوئی فیصلہ جو پارلیمنٹ کی قراردادوں کی نفی کر رہا ہو، وہ قابلِ مذمت ہے۔

اس مسئلے پر اپنا موقف دیتے ہوئے انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’یہ ایک انتہائی غیر دانشمندانہ فیصلہ ہے، جس کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔ ہمارا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ہم نے افغانستان کی جنگ میں کود کر اپنے ہاتھوں کو جلایا اور اب ہم مشرقِ وسطیٰ کی جنگ میں مداخلت کر کے اپنے جسم کا جلا رہے ہیں۔ اس فیصلے سے ایران سخت ناراض ہوگا اور ہماری بین الاقوامی تنہائی میں مزید اضافہ ہوگا۔‘‘

Pakistan Asif Ghafoor
پاکستانی آرمی کے شعبہ ء تعلقات عامہ کی طرف سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان کی فوجی سعودی عرب بھیجے جا رہے ہیں اور یہ کہ یہ فوجی تربیتی اور مشاورتی خدمات سر انجام دیں گےتصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed

افغانستان میں چینی فوجی اڈے کا مبینہ پلان، اثرات کیا ہوں گے؟
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ایسے فیصلے پارلیمنٹ کرتی ہے، جو عوام کا منتخب کردہ ادارہ ہے،’’آرمی چیف نے پہلے سعودی عرب کا دورہ کیا اور پھر سعودی سفیر کی ان سے ملاقات ہوئی، اس کے بعد یہ فیصلہ سامنے آیا لیکن اس حوالے سے پارلیمنٹ کو کچھ نہیں بتایا گیا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ کتنی فوج وہاں جا رہی ہے اور اس کے کیا مقاصد ہیں؟ جس انداز میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے، ہمیں اس پر شدید تحفظات ہیں اور ہم اس مسئلے کو پارلیمنٹ میں اٹھائیں گے۔‘‘
اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے سینیٹر تاج حیدر نے طنزیہ انداز میں کہا، ’’اب تو اس اتحاد میں بھی پھوٹ پڑ گئی ہے جو سعودی عرب نے بنوایا تھا، تو اگر ہمارے فوجی جا رہے ہیں تو آدھے فوجی ایک گروپ کے لئے لڑ سکتے ہیں اور آدھے دوسرے گروپ کے لئے۔ ہم جا رہے ہیں تو ہمیں پیسے بھی تو ملیں گے۔ ‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’پارلیمنٹ نے پہلے بھی اس حوالے سے قرار داد پاس کی تھی، تواس قرارداد کی بے توقیری کی گئی۔ اگر اب ہم دوبارہ بھی کوئی قرار داد پاس کرتے ہیں تو اس کی کون پاسداری کرے گا؟‘‘

پاک سعودی مشترکہ فوجی مشقیں، ہدف کون ہے؟
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ء بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکڑ طلعت اے نے بھی اس فیصلے کو غیر دانشمندانہ قرار دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’مجھے اس فیصلے سے شدید مایوسی ہوئی ہے۔ جب پارلیمنٹ اور آرمی دونوں نے یہ کہہ دیا تھا کہ فوج نہیں بھیجنی تو اب کیوں فوج بھیجی جارہی ہے؟ یہ بات غلط ہے کہ سعودی عرب کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق ہے۔ سعودی عرب یمن میں بے رحمانہ انداز میں بمباری کر رہا ہے اور اس کی وجہ سے سعودی عرب کی دنیا میں بہت بدنامی ہوئی ہے۔ اس بمباری کے جواب میں حوثی باغی کچھ راکٹ فائر کرتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سعودی عرب کی سلامتی کو خطرہ ہے۔‘‘
لیکن حکومتی سینیٹر راجہ ظفر الحق اس فیصلے کا دفاع کرتے ہیں۔ اس فیصلے پر اپنے تاثرات دیتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سعودی عرب ہمارا برادر اسلامی ملک ہے۔ پاکستان سے اس کے دیرینہ تعلقات ہیں۔ سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے۔ اب ان پر راکٹ فائر ہو رہے ہیں اور میزائل بھی مارے جا رہے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ میزائل اپنے ہدف پر نہیں لگے ورنہ بڑا نقصان ہوتا۔ تو ایسے مشکل وقت میں ہم ان کا ساتھ کیوں نہ دیں۔ تاہم ہماری فوجیں صرف ان کو تربیت دیں گی اور عسکری امور پر مشورے دیں گی۔ وہ سعودی عرب کی جغرافیائی حدود میں ہی رہیں گی۔‘‘