1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا خواتین بہتر باس ثابت ہوتی ہیں؟

25 مارچ 2021

زندگی میں ساس اور باس سے واسطہ تقریباً ہر کسی کو پڑتا ہے۔ یہ دونوں منصب کسی کو ملیں اور اس کا رویہ اپنی بہو، داماد یا ماتحت عملے کے ساتھ مثالی اور اچھا رہے یہ بھی ناممکن ہے۔

https://p.dw.com/p/3r66i
Shumaila Hussain | DW Urdu Blogerin
تصویر: Privat

کسی لمحے میں کوئی اچھا تو کسی وقت میں کوئی بھی کسی کے لیے برا ہو سکتا ہے۔ لیکن وہ ولایتی سیانے کہہ گئے ہیں نا کہ ’’باس از آلویز رائٹ‘‘۔ تو باس کو یہ اختیار ہمیشہ کے لیے دے دیا جاتا ہے کہ وہ جو بھی کہے، جو بھی کرے وہ ’غلط نہیں‘ ہو سکتا۔ چاہے پھر وہ ورک پلیس ہراسمنٹ ہو یا جنسی ہراسانی کا کیس، اکثر و بیشتر سربراہ ادارہ اپنے منصب کا استعمال کرتے ہوئے اپنا دامن صاف بچا جاتا ہے۔

لیکن جب سے پوری دنیا میں خواتین نے اپنی قابلیت اور محنت کے بل بوتے پر اداروں کی سربراہی کا سہرا اپنے سر لینا شروع کیا ہے، ماتحتوں کے مسائل کی نوعیت میں بھی تنوع آیا ہے۔ جب تک مردوں کے ہاتھ میں یہ پوزیشنز رہیں، ان کے تحت کام کرنے والوں کو ضرورت سے زیادہ کام کا پریشر، آفس کی سطح کی سیاست، اقرباء پروری اور ملازمت کے کسی بھی ذاتی عناد کی بنیاد پر ختم کر دیے جانے کا خوف لاحق رہا۔

لیکن جب خواتین نے مخصوص شعبوں سے نکل کر مردوں کے لیے مختص ملازمتیں کرنے کا حوصلہ کیا تو انہیں مرد ساتھیوں کے مقابلے میں کم تنخواہ اور مرد سربراہوں کی طرف سے جنسی ہراسانی کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ بھی کہا جاتا رہا کہ مرد چونکہ عورتوں کے مسائل کو سمجھتے نہیں، اس لیے ان سے تعاون نہیں کرتے۔

لیکن ہوا کچھ یوں کہ جب مختلف معاشروں اور ملکوں میں خواتین کو اداروں کی سربراہان مقرر کیا جانے لگا تو مرد کولیگز کو تو جو شکایتیں ان سے پیدا ہوئیں، سو ہوئیں، خواتین بھی خواتین سے کچھ زیادہ خوش نہیں ہو پائیں۔ سن 2013 میں امریکا میں ہوئے گیلپ سروے کے مطابق چالیس فی صد خواتین مرد باس کے ساتھ کام کرنے کو ترجیح دیتی ہیں جبکہ 29 فی صد مرد مرد باس کو پسند کرتے ہیں۔ اسی طرح 27 فی صد خواتین کسی خاتون باس کے ساتھ کام کرنا مناسب سمجھتی ہیں اور 18 فی صد مرد خواتین باسز کے ساتھ آسانی محسوس کرتے ہیں۔

 32 فی صد عورتیں دونوں کے ساتھ کام کرنے میں نہیں جھجھکتیں اور 51 فی صد مرد دونوں میں فرق نہیں سمجھتے۔ بعد والے برسوں میں خواتین سربراہان کے متعلق رائے میں تبدیلی دیکھنے میں آئی لیکن فرق بہرحال موجود رہا۔ اکثریت کا کہنا تھا کہ عورتیں بہترین مینیجر ہوتی ہیں۔ وہ ورک پلیس پر دیگر حرکات جو کام سے متعلق نہ ہوں، ان کی حوصلہ افزائی نہیں کرتیں۔ زیادہ محنتی ہوتی ہیں اور اچھے نتائج کے لیے مردوں کے مقابلے میں زیادہ فوکسڈ ہوتی ہیں۔

 مردوں کو فی میل باسز سے جو مسائل دیکھنے میں آئے، ان میں قابل ذکر تو یہ ہی ہے کہ ایک عورت ہم پر حکم چلائے، ان کی انا کو ٹھیس پہنچانے کے لیے کافی ہے، باقی مسائل زیادہ تر اسی سے جنم لیتے ہیں۔

لیکن ذاتی طور میں نے محسوس کیا کہ جس جگہ میل باسز ہوں، وہاں آفس میں ٹینشن کی فضا کم ہوتی ہے۔ اگر وہ خواتین کو جنسی طور پر ہراساں نہ کرتے ہوں تو عورتوں کے حق میں عموماً مرد بہتر باس ثابت ہوتے ہیں۔

آپ فی میل ہوتے ہوئے اپنی فی میل باس کو اپنی طبیعت خرابی کا بتا کر رخصت لینا چاہیں تو وہ عموماً ایسی کسی بھی بات کو ہوا میں اڑا دیتی ہیں۔ ان کے لیے ماہواری، حمل اور کسی بھی طرح کی جسمانی تکلیف کے ہوتے ہوئے کام کرتے رہنا بالکل نارمل ہوتا ہے۔

آپ کے گھر مہمان ہیں، آپ کا بچہ بیمار ہے یا کوئی بھی فیملی ایشو ان کے لیے کوئی بڑی بات نہیں ہوتی۔ کہ ایک عورت ہوتے ہوئے وہ بھی تو ان سب چیزوں سے گزر کے یہاں بیٹھی ہوئی ہیں تو اس سوچ کے ساتھ وہ اپنی فی میل ماتحت عملے کے لیے بہت کم نرم گوشہ رکھتی ہوں گی۔

کچھ روز قبل میں ایک آفس میں ایک فی میل ہیڈ سے ملنے گئی تو میرے سامنے انہوں نے کہا کہ میں اسی لیے فی میل سٹاف بھرتی نہیں کرتی کہ ان کے مسائل بہت ہوتے ہیں۔ ان مسائل میں وہ فیلڈ ورک کے لیے ان کے پاس ذاتی سواری کا نہ ہونا، ماہواری اور حاملہ ہونے کے سلسلے میں چھٹی کرنا، دور سے آنے کی صورت میں لیٹ ہونا، کنوینس کا خرچ ڈیمانڈ کرنا، جنسی ہراسانی کی شکایت کرنا اور چھٹیاں کرنا گنواتی رہیں۔

 خود مجھے ایک ہی آفس میں کچھ عرصہ ایک فی میل کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تو میں نے محسوس کیا کہ وہ آفس کم اور سخت قسم کی ہیڈ مسٹریس کے انڈر چلنے والا پرائمری سکول زیادہ تھا۔ یہاں تک کہ وہ اپنی فی میل ورکرز کو آفس کی سواری بھی استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتی تھیں۔ لیکن اسی آفس میں جب میل باس کی تقرری ہوئی تو انہوں نے سب سے پہلے خواتین کی نقل و حرکت کو آسان بنانے کی طرف توجہ دی اور ہر طرح کی سہولت کے لیے خواتین کو ترجیح دی تاکہ وہ بآسانی اپنی ملازمتوں کو جاری رکھ سکیں۔

عورتوں میں شاید ایمانداری، خدا خوفی اور رزق حلال کا رجحان بھی چونکہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے لہٰذا وہ کام میں کسی بھی طرح کی کوتاہی پر مردوں کے مقابلے میں جواب دہی بھی زیادہ کرتی ہیں، اسی طرح جو باتیں مردوں کے لیے عام ہوتی ہیں ان پر خواتین کے تحفظات یقینی طور پر زیادہ ہوتے ہیں۔ لہذا بہت  کم خواتین اپنی ہی جنس کو پراپر سپورٹ کر پاتی ہیں۔

جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ جہاں عورتیں ایسی پوزیشنز پر براجمان ہیں، وہاں دیگر خواتین کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں، جہاں ایک دوسرے کو تعاون کی ضرورت ہو وہاں معاون ہوا جائے۔ اگر کسی خاتون کو کسی قسم کی ہراسانی کا سامنا ہو تو اس کا ساتھ دیا جائے۔ اگر کوئی فی میل کسی قسم کی جسمانی تکلیف کے باعث آرام طلب کرے تو اسے آسانی فراہم کی جائے۔

میری ناقص عقل میں یہ بات نہیں آتی کہ ایسا کیوں ضروری ہے کہ جب خواتین کو باس چنا جائے تو وہ ساس ہی بن جائیں اور جب ساس بنیں تو خود کو باس سمجھ لیں اور باس بھی وہ جو کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔