1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا تاریخ واقعی ختم ہو گئی؟

27 دسمبر 2022

سن 1988ء کے دوران جنیوا میں معاہدے کے تحت افغانستان سے روسی افوج کا انخلا ہوا۔ اس تاریخی واقعے کے تین برس بعد 1991ء میں سوویت یونین کی سولہ ریاستوں نے اپنے آپ کو آزاد قرار دے کر سوویت یونین سے علیحدگی اختیار کر لی۔

https://p.dw.com/p/4LS7J
DW Urdu Blogerin Zubeida Mustafa.
تصویر: privat

فرانسیس فوکویاما نامی ایک امریکی سیاسی مبصر نے اس موقع کو ''تاریخ کا اختتام‘‘  قرار دیا اور انخلا کے معاہدے کو امریکہ کی فتح تصورکیا۔ فوکویاما نے اس خیال کا اظہار کیا کہ دنیا سے سرد جنگ کا خاتمہ ہو چکا ہے اور آئندہ امریکہ کی سر پرستی میں جمہوریت کا ہی بول بالا ہو گا۔

قارئین کو یاد ہو گا کہ سرد جنگ 1945ء میں دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر اس وقت شروع ہوئی تھی، جب دنیا میں دو سپر پاورز امریکہ اور سوویت یونین ابھر کر سامنے آئیں اور 1991ء تک بین الاقوامی امور میں یہ ہی کیفیت جاری رہی۔  یعنی ان دو بڑی قوموں کے درمیان کوئی جان لیوا جنگ نہیں چھڑی لیکن دوستانہ ماحول بھی قائم نہ ہو سکا۔ ان کے درمیان نظریاتی تفریق  موجود رہی اور  آئے دن معمولی باتوں پر نااتفاقی ہوتی رہی۔

سب سے زیادہ پریشان کن پہلو یہ تھا کہ دونوں نے الگ الگ فوجی کیمپ بنا رکھے تھے، جن میں ان کے فوجی اتحادی شامل تھے۔ مغربی ممالک نیٹو کے رکن تھے اور نیٹو کے ذریعے واشنگٹن کو سہارا دیتے اور دوسری طرف سوویت یونین کے اتحادی ''وارسا معاہدے‘‘ کے پرچم تلےاس کو تقویت دیتے۔

جہاں تک تیسری دنیا کے ممالک کا تعلق تھا، وہ موقع محل کی مناسبت سے مختلف مسائل پر رویہ اختیار کرتے۔ یہ ممالک غیرجانبدار تحریک کے ممبر تھے اور اس طرح اپنی حفاظت کرتے تھے۔ تاہم پاکستان جیسے کچھ ترقی پذیر ممالک ایسے بھی تھے، جو امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدوں سے منسلک تھے اور سوویت یونین مخالف سرگرمیوں کا حصہ بنتے تھے۔

موجودہ بین الاقوامی سیاست سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوکویاما کے خیالات کتنے بے بنیاد تھے۔ نہ تو امریکہ مکمل طور پر دنیا کوکنٹرول کر سکا اور نہ ہی تاریخ ختم ہو سکی۔ سب سے پہلے دنیا کو اس بات کا احساس ہو گیا  کہ افغانستان میں جو ہوا، وہ ''امریکی سازش‘‘ کی ابتدا تھی۔ سوویت یونین  کے اختتام کے بعد روس نے وارسا معاہدے کو ختم کر دیا لیکن نیٹو اتحاد قائم رہا۔ اس وقت یہ بھی خیال کیا گیا کہ دنیا سے ایٹمی ہتھیار بھی ختم کر دیے جائیں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

رفتہ رفتہ روس نے امریکہ کی  نئی پالیسیوں کو سمجھنا شروع کیا اور وہ بھی طاقت کے اس کھیل میں  دوبارہ شامل ہو گیا، جس میں اس کو اتحادیوں کی تلاش رہتی ہے۔ اب تاریخ دوبارہ وہیں آ کھڑی ہوئی ہے، جہاں وہ 1991ء سے پہلے تھی۔

یوکرین میں روس نے، جو کیا وہ اس کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکہ اور روس ویسے ہی اپنی قوت میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں، جیسے وہ سرد جنگ کے زمانے میں کرتے تھے۔ اس کے علاوہ روس ایران اور شام وغیرہ سے بھی دوستی بڑھا رہا ہے کیوں کہ امریکہ ان کا  مخالف ہے۔

 آج کل کے بین الاقوامی کھیل کے میدان میں بہت  سے نئے کھلاڑی آ گئے ہیں، جن میں سب سے اہم چین ہے، جسے اپنی معاشی طاقت کے وجہ سے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ چین کا مقابلہ عام طور سے امریکہ کے ساتھ کیا جاتا ہے، جس کا فائدہ روس کے حق میں جاتا ہے۔

افسوس اس بات کا ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں اپنے اس کھیل میں دنیا کی چھوٹی ریاستوں کو اپنا شکار بنا لیتی ہیں، جس میں ان کی ترقی اور عوامی انصاف مار کھاتے ہیں۔ اب یہی کہا جا سکتا ہے کہ تاریخ کا خاتمہ بلکل نہیں ہوا بلکہ ایک نئے قسم کا تاریخی دور شروع ہوا ہے، جو پہلے سے زیادہ خطرناک ہے اور تیسری دنیا کے ممالک کے لیے زیادہ تکلیف دہ ثابت ہو گا۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔