1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا بیٹی پیدا کرنا اتنا سنگین جرم تھا؟

3 جولائی 2020

بلوچستان میں خواتین پر دردناک تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہاں میڈیا پابند اور زیادہ متحرک نہ ہونے کے باعث اس طرح کے 50 واقعات میں سے صرف 2 ہی رپورٹ ہو پاتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3ejRY
Symbolbild Häusliche Gewalt Gewalt gegen Frauen
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gambarini

پنجاب سے بلوچستان تک پھیلا ہوا کوہ سلیمان کا وسیع پہاڑی سلسلہ نہ صرف اپنے خوبصورت جنگلات کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے بلکہ اس کی تاریخی اہمیت بھی ہے۔ اس پہاڑی سلسلے کے متعلق ایک مشہور قصہ یہ ہے کہ یہاں کی چوٹیوں پر رات میں پریاں رقص کیا کرتی تھیں۔  پھردور بدلا اور ان علاقوں کی تاریخ بھی بدلتی گئی اور اب سننے میں آرہا ہے کہ پریوں کی بجائے یہاں رات میں ایک عمر رسیدہ ماں کی روح بھٹکتی دیکھی گئی ہے جسے کچھ عرصہ پہلے بد چلنی کے الزام میں بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا اور اس واقعے کا اندوہناک پہلو یہ ہے کہ یہ خاتون 6 بچوں کی ماں تھی، جن میں سے دو ذہنی معذور ہیں اور جو اب سڑکوں پر رُل رہے ہیں ۔

بلوچی ثقافت میں کارو کاری کا کوئی تصور کسی دور میں نہیں رہا۔ اگرچہ خواتین کو یہاں گھرسے باہر نکلنے اور تعلیم حاصل کرنے  کی آزادی بھی حاصل نہیں مگر کچھ  خاندان اپنے گھروں کی خواتین کوعزت ضرور دیا کرتے تھے۔ اب کچھ عرصے سے مقامی افراد  نے کہیں جائیداد کی لالچ میں تو کہیں باہمی تنازعات سے نمٹنے کے لیے دوسری چیزوں کے ساتھ سندھی کلچر سے کاروکاری جیسا قبیح فعل بھی مستعارلے لیا اور اس کے بھینٹ اکثر ان پڑھ مرد و زن چڑھ جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقع یکبہئی نامی علاقے کی رہائشی راجو بی بی  کے ساتھ  کچھ عرصے پہلے پیش آیا۔ جن پر ابتدا میں شوہر کی جانب سے غیر مردوں کے ساتھ تعلقات کا الزام لگا یا گیا اور پھر قبائلی رسم و رواج کے مطابق بنا ثبوت فیصلہ کرتے ہوئے انہیں طلاق دے کر برادری سے کاٹ دیا گیا حالانکہ خاتون شادی کی عمر سے تجاوز کر چکی تھیں اور جوان بچوں کی ماں تھیں ۔

Baluchistan  Häusliche Gewalt  | Opfer
بیٹی کو بوجھ سمجھ کر کسی کے بھی حوالے کر دینا بہت سے معاشروں کی عام روایت ہے۔تصویر: privat

ان کی درخواست پر دو ذہنی معذور بیٹوں کو ان کے ساتھ رہنے کی اجازت دی گئی مگر سابق شوہر میوہ خان کا کینہ کسی طور ختم ہونے میں نہیں آتا تھا اور پھر ایک رات انہیں نا معلوم  افراد نے قتل کر دیا۔ ان کے قتل کے بعد سے دونوں معذور بچے در بدر ہیں۔ علاقے کے کچھ پڑھے لکھے افراد سے جو معلومات حاصل ہوئیں، ان کے مطابق خاتون کے شوہر جو ان کے مبینہ قاتل بھی ہیں انہیں علاقے کے با اثر افراد کی آشیرباد حاصل تھی پھر بھی کچھ لوگوں کی جانب سے آواز اٹھانے پر پولیس نے اسے کچھ عرصے قبل ہی گرفتار کیا ہے، جس کے بعد سے باقی 4 بچے بھی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ 

ایسا ہی ایک لرزہ خیز واقعہ 17 جون کی رات بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ  کے علاقے توبہ اچکزئی میں پیش آیا۔ لڑکی کے والد کی جانب سے پشین تھانے میں جو ایف آئی آر درج کروائی گئی، اس کے مطابق انہیں 18 جون کی صبح کال کی گئی کہ ان کی بیٹی نے خود کشی کر لی ہے اور وہ لاش پشین کے سول ہسپتال سے لے جائیں۔ مگر جب انہوں نے اپنی بیٹی کی لاش دیکھی تو اس پر شدید ترین تشدد کے نشانات بہت واضح تھے۔ لہذا انہوں نے لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے سنڈیمن ہسپتال کوئٹہ منتقل کیا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق خاتون جن کی عمر بشمکل 22 سال تھی اسے لکڑی کے ایک ڈنڈے سے بری طرح مارا گیا اور منہ کو ناخنوں سے نوچا گیا  تھا مگر دوران مزاحمت اس کا انتقال ہو گیا۔

خاتون کے والد کے مطابق ان کا داماد پہلے بھی بیٹی پر تشدد کرتا تھا مگر ایک ماہ قبل تیسری بیٹی کی پیدائش کے بعد اس تشدد میں شدت آ گئی تھی انہوں نے خاندان کے بڑوں کو بیچ میں  ڈالا تو انہیں یقین دہانی کرائی گئی کہ اب ایسا نہیں ہو گا جس پر انہوں نے بیٹی کو دوبارہ سسرال جانے دیا مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ اب اس کی بری طرح مجروح لاش ہی دیکھیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ وہ خود بھی زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں مگر اتنا ادراک تو جاہل انسان بھی رکھتا ہے کہ بیٹا یا بیٹی پیدا کرنا عورت کے بس میں نہیں ہوتا۔ ایسا تو زمانہ جاہلیت میں ہی ہوا کرتا تھا کہ بیٹی کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفنا دیا جاتا تھا مگر یہاں تو دہرا ستم یہ ہے کہ ماں بھی بہیمانہ تشدد کے ساتھ قتل کر دی گئی ہے۔ کیا بیٹی پیدا کرنا اتنا سنگین جرم  تھا؟ 

Baluchistan  Häusliche Gewalt  | Opfer Raju Bibi
فرسودہ معاشرے میں عورت کسی بھی عمر کی ہو اُسے تشدد کا شکار بنانا کوئی بڑی بات نہیں۔تصویر: privat

اس واقعے پر مقامی حلقوں کی جانب سے شدید غم وغصے کا اظہار کیا گیا کیونکہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں  گزشتہ 6 ماہ میں خواتین پر تشدد کے ایسے 28 واقعات سامنے آ چکے ہیں۔ اس حوالے سے سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی کے شعبۂ سماجیات کی ایک طالبہ  پلوشہ خان کا کہنا تھا،’’ایسے واقعات ماضی میں بھی ہمارے معاشرے کا حصہ تھے مگر  سرداری و نوابی سسٹم  کی وجہ سے رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے تھے۔ اب شرح خواندگی میں اضافے کے باعث خواتین خود بھی اپنے حقوق پہچاننے لگی ہیں اور گھٹ گھٹ کر مر نے اور گھروں میں ہونے والے بہیمانہ تشدد پر خاموش رہنے کی بجائے اسے شیئر کرتی ہیں، جس کی وجہ سے اگر خدا نہ خواستہ قتل تک بات جائے تو جرم چھپا نہیں رہتا۔ میں اپنے ساتھ زیر تعلیم ریموٹ ایریاز سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کو بھی ہمت دلاتی ہوں کہ وہ چپ رہنے کی بجائے اپنے خلاف ہونے والے ظلم پر آواز اٹھائیں۔‘‘

اس حوالے سے ڈی ڈبلیو نے مقامی میڈیا اسکالر اور سماجی کارکن شمس اللہ درانی سے رابطہ کیا، جو بلوچستان میں انسانی حقوق اور خواتین کی خود مختاری کے لیے خاصے متحرک ہیں اور بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام سے بطورآرگنائیزر وابسطہ ہیں، ان کا کہنا تھا کہ  کورونا وائرس کی وجہ سے بے روزگاری اور بڑھتے ہوئے معاشرتی مسائل کی وجہ سے صرف بلوچستان ہی نہیں کراچی جیسے بڑے شہروں میں بھی خواتین پر گھریلو تشدد کے واقعات بڑھ گئے ہیں،’’چونکہ باہر افراتفری کا عالم ہے اور حکومت مسلسل غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہی ہے تو لازمی مرد حضرات بھی ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ مگر ایک پڑھے لکھے انسان کو یہ کسی صورت بھی زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے گھر کی عورت پر ہاتھ اٹھائے جو اسکی شریک حیات بھی ہے اور بچوں کی ماں بھی۔‘‘

Pakistan Belutschistan Selbstmordattentat in Moschee
عورتیں اور لڑکیوں کی زندگیوں کے چراغ بجھا دینے والے مرد دندناتے پھرتے ہیں۔تصویر: Getty Images/AFP/F. Hussain

توبہ اچکزئی کا حالیہ واقعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مسئلہ صرف بیٹیوں کی پیدائش کا نہیں تھا۔ بلوچستان میں صورتحال زیادہ پریشان کن اس لیے ہے کہ یہاں میڈیا پابند اور زیادہ متحرک نہ ہونے کے باعث اس طرح کے 50 واقعات میں سے شاید صرف 2 ہی رپورٹ ہو پاتے ہوں۔ وہ بھی اس صورت میں جب خاتون پر شدید تشدد کے بعد ہسپتال لایا جائے یا قتل کے بعد ان کے لواحقین آواز اٹھائیں۔

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں