1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا بھارت کا ’مشن شکتی‘ مودی کو پھر وزیر اعظم بنوا دے گا؟

جاوید اختر، نئی دہلی
28 مارچ 2019

بھارت میں آئندہ عام انتخابات سے صرف دو ہفتے قبل اینٹی سیٹلائٹ میزائل کے کامیاب تجربے کے بعد اب یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ آیا اس ’مشن شکتی‘ کے سیاسی نتائج کے باعث وزیر اعظم نریندر مودی ایک بار پھر اقتدار میں آ سکیں گے؟

https://p.dw.com/p/3Fow9
تصویر: PIB, Govt. of India

جنوبی ایشیا کی اس ریاست میں انتخابی گہما گہمی کے دنوں میں ’مشن شکتی‘ کے نام سے اس اینٹی سیٹلائٹ ہتھیار کے تجربے پر جہاں ملکی اپوزیشن نے شدید اعتراضات کیے ہیں، وہیں دوسری طرف قومی الیکشن کمیشن یہ طے کرنے میں مصروف ہے کہ آیا اس میزائل تجربے کے بعد الیکٹرانک میڈیا پر قوم سے اپنے خطاب کے ساتھ مودی انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے تھے؟ بھارتی الیکشن کمیشن نے اس کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے، جو نریندر مودی کی حکومت سے یہ بھی معلوم کرے گی کہ آخر اس وقت ہی اس تجربے کی کیا ضرورت تھی۔

Indien Start Abfangrakete der Ballistic Missile Defence - BMD
تصویر: PIB, Govt. of India

نئی دہلی میں الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’وزیر اعظم کی تقریر کا معاملہ کمیشن کے نوٹس میں لایا گیا ہے۔ کمیشن نے کمیٹی کے ارکان کو فوراﹰ اس الزام کو انتخابی ضابطہ اخلاق کی روشنی میں جانچنے کا حکم دے دیا ہے۔‘‘

متعلقہ سائنسی ادارے کے بجائے مودی کیوں؟

بھارت میں میزائل اور دیگر خلائی تجربات ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں اور ان کے بارے میں متعلقہ سائنسی ادارہ یا اس ادارے کے سربراہ ہی میڈیا اور عوام کو مطلع کرتے تھے۔ یہ پہلا موقع تھا جب وزیر اعظم نریندر مودی نے خود قوم سے خطاب کرکے اس ’تاریخی کامیابی‘ کی اطلاع دی۔

قوم سے خطاب کی اطلاع تقریباﹰ ایک گھنٹہ پہلے فیس بک، ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا پر جس انداز میں دی گئی تھی، اس نے پوری قوم کو حیران کر دیا تھا۔

ملکی اپوزیشن جماعتوں نے سوال کیا ہے کہ اس میزائل کو تیار کرنے والے حکومتی ادارے ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ڈی آر ڈی او) نے خود اس تجربے کی کامیابی کا اعلان کیوں نہ کیا۔

ان سیاسی پارٹیوں نے الزام لگایا ہے کہ وزیر اعظم مودی نے اس کا استعمال صرف اور صرف اپنی پارٹی کو آئندہ انتخابات میں سیاسی فائدہ دلانے کے لیے کیا۔ بھارت میں اگلے عام انتخابات کے پہلے مرحلے کے تحت عوامی رائے دہی گیارہ اپریل کو ہو گی۔

کیا الیکشن کمیشن کو خطاب سے قبل بتایا گیا تھا؟

اس بارے میں بائیں باز و کی جماعت مارکسی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے جنرل سیکرٹری سیتا رام یچوری نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’دنیا میں اور بھارت میں بھی اس طرح کے سائنسی کارناموں کا اعلان متعلقہ سائنسی تنظیموں یا اداروں کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ بھارت میں بھی یہ کام ڈی آر ڈی او کو کرنا چاہیے تھا۔ لیکن اس کے بجائے یہ کام مودی نے کیا۔‘‘

سیتا رام یچوری کا کہنا تھا، ’’الیکشن سے کچھ ہی پہلے اس طرح کا اعلان اور پھر قوم سے خطاب یقینی طورپر مثالی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہیں۔ الیکشن کمیشن کو یہ بتانا چاہیے کہ آیا وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کرنے سے قبل اسے مطلع کیا تھا اور اگر کیا تھا، تو کمیشن نے اس کی اجازت کیوں دی تھی؟‘‘

سیتا رام یچوری کا یہ بھی کہنا تھا کہ مودی حکومت اپنی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی ممکنہ شکست سے خوف زدہ ہے، اسی لیے وہ ایسے حربے استعمال کر رہی ہے۔

نئی دہلی میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چودہ فروری کو پلوامہ میں حملے اور اس کے بعد پاکستانی علاقے میں بھارتی فضائیہ کی کارروائی سے مودی اور ان کی پارٹی کے حق میں جو فضا بنتی دکھائی دے رہی تھی، اس کا اثر اب کم ہوتا جا رہا ہے۔ لہٰذا اب مودی حکومت ’مشن شکتی‘ کے سہارے اپنی کشتی پار لگانے کی کوششوں میں ہے۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے چھان بین

وزیر اعظم مودی کے رویے پر کئی سابقہ چیف الیکشن کمشنرز نے بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ سابق چیف الیکشن کمشنر این گوپال سوامی کا کہنا ہے، ’’اگر بات یہ ہے کہ وزیر اعظم ملک کی نمائندگی کر رہے تھے، تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن اگر وہ اپنی پارٹی کی نمائندگی کر رہے تھے، تو تب یہ ایک مسئلہ ہے۔ اب یہ دیکھنا الیکشن کمیشن کا کام ہے کہ حقیقت کیا ہے؟‘‘ ایک دوسرے سابق چیف الیکشن کمشنر کا اپنا نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پرکہنا تھا، ’’یہ مثالی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔ اس میزائل تجربے کے وقت پر سوال کیا جا سکتا ہے کیوں کہ اس سے بی جے پی کو فائدہ ہوسکتا ہے۔‘‘

بھارتی سائنسی برادری بھی وزیر اعظم مودی کے رویے سے خوش نہیں ہے۔ سرکاری ادارے کونسل فار سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ کے سابق سربراہ، ڈاکٹر گوہر رضا نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا، ’’اگر اس کامیابی کو سیاست سے جوڑ کر دیکھا جائے، تو یہ ہمارے سائنس دانوں کے ساتھ ناانصافی ہو گی۔ ’مشن شکتی‘ پر کام آج تو شروع نہیں ہوا۔ اس پر بھارتی سائنسدان کم از کم دس سال سے محنت کر رہے ہوں گے۔ لیکن سیاست دانوں کی طرح سائنس دانوں میں کامیابی کا سہرا اپنے سر لینے کی دوڑ نہیں مچی ہوتی۔ ایسا دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوتا۔‘‘

’مشن شکتی‘ پر کام تو برسوں سے جاری تھا

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر گوہر رضا کا کہنا تھا، ’’اس کامیابی کا یہ مطلب نہیں کہ اب ہم دوسرے ملکوں کے سیٹلائٹس کو نشانہ بنانے لگیں گے۔ اب تک اس کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی ملک نے جنگ کے دوران ایسا کچھ کیا ہو۔ اس کامیابی سے دراصل ہمارے اندر خود اعتمادی پیدا ہو گی اور اس کا سہرا پوری طرح سائنسدانوں کے سر جاتا ہے۔‘‘

اسی دوران بھارتی وزارت خارجہ نے بھی ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’مشن شکتی‘ کا تجربہ کسی ملک کے خلاف نہیں ہے۔ بھارت کا خلاء میں ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ نئی دہلی خلاء کو ہتھیاروں کی جگہ بنانے کے خلاف ہے۔ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’مشن شکتی‘ کا تجربہ کم اونچائی پر کیا گیا تاکہ خلاء میں تباہ ہونے والے راکٹ کا کوڑا زمین پر ہی گرے۔

کئی ماہرین نے اس دعوے پر شبہ ظاہر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے کسی ملبے کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا اور یہ کہنا بھی مشکل ہوتا ہے کہ یہ خلائی کوڑا کرکٹ کس طرف جائے گا۔ امریکی وزارت دفاع نے بھی کہا ہے کہ وہ بھی بھارت کے اس دعوے کی جانچ کر رہی ہے کہ ’مشن شکتی‘ کے تجربے کے بعد خلاء میں کوئی کچرا نہیں چھوڑا گیا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں