1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا اب پھر بیٹیاں زندہ دفن کر دی جائیں؟

16 مارچ 2021

اکثر اوقات یہی سمجھا جاتا ہے کہ اگرخواتین کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے تو اس کی روک تھام ممکن ہے۔ لیکن عائشہ بھی تو تعلیم یافتہ تھی پھر ایسا کیوں ہوا؟ طاہرہ سید کا بلاگ

https://p.dw.com/p/3qgcG
طاہرہ سید، بلاگرتصویر: Privat

ڈرامے ہماری حقیقی زندگی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اسی لیے زندگی کی سچائیوں اور تلخ حقیقتوں پر مبنی مناظر کو خوب پذیرائی ملتی ہے۔ لیکن زندگی کی کسی ایسی ہی سچائی کو ڈرامے کے بجائے حقیقت میں دیکھنا ایک بہت ہی مختلف بات اور بیان کرنا ایک دشوار مرحلہ ہے۔ گزشتہ دنوں ایک جان گسل خبر سماعتوں سے ٹکرائی کہ پڑوسی ملک بھارت کی عائشہ زوجہ عارف خان نے دریا میں چھلانگ لگا کر اپنی جان دے دی۔ یہ اُن ان گنت کہانیوں میں سے ایک ہے جہاں انسان دشمن سماج نے ایک معصوم پر زندگی اس قدر تنگ کردی کہ گویا جینے کا حق ہی اس سے چھین لیا۔ اس جیسے بےشمار واقعات کسی ایک ملک تک محدود نہیں ہیں بلکہ تمام ترقی پذیر ممالک میں معاشرتی رویوں کا نتیجہ ہے۔

احمد آباد کی رہائشی عائشہ، ایم اے اکنامکس کی طالبہ تھی اور ایک بینک میں نوکری کر رہی تھی۔ شادی کے چند ماہ بعد ہی اُسے ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ جہیز کم لانے پہ آئے دن اُس کے سُسرال والے پیسوں کا مطالبہ کرتے اور یہ مسئلہ اُس کی گھریلو ناچاکی کی وجہ بنا۔ والدین کا کہنا ہے کہ لڑکے کے گھر والوں نے پہلے بھی ان سے پیسوں کا مطالبہ کیا تھا اور انھوں نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر ان کے مطالبات پورے کیے۔اس کے باوجود عائشہ کو ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اسی دوران عائشہ کا ہونے والا بچہ بھی ضائع ہوگیا تھا۔ جس پرعائشہ کے والدین کی طرف سے پولیس میں ایف آئی آر بھی کٹوائی گئی۔ منظرعام پر آنے والی فون کالز اور وکیل کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ عائشہ کا شوہر کسی دوسری لڑکی میں دلچسپی لیتا تھا جس سے وہ اپنی بیوی کی موجودگی میں فون پر بات کرتا تھا۔ شوہر کے والدین کی طرف سے کبھی اس کے اس رویے پر کوئی سرزنش نہیں کی گئی۔

طاہرہ سید کی مزید تحریریں

توہم پرستی اور ذہنی امراض

رویوں میں بدلاؤ کی ضرورت، بچوں کو یا والدین کو؟

خالق کی تخلیق میں ادھورا پن تلاش مت کیجیے

اپنے اردگرد دیکھیں آپ کو ایسی کئی کہانیاں نظر آئیں گی جن میں ایک بڑی تعداد اُن خواتین کی ہوگی جنہیں اُن کے والدین نے شادی سے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ شادی کے بعد واپس گھر مت آنا۔ یعنی ایک لڑکی جو اپنی نئی زندگی کی ابتداء کرنے جا رہی ہے، جسے اس وقت اپنے والدین اور رشتہ داروں کے تعاون کی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے، اس کی کشتیاں ہی جلا دی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک لڑکی پھر سارا ظلم اور ناانصافی خاموشی سے برداشت کرتی ہے. لیکن اپنے اوپر کی جانے والی زیادتی پر آواز نہیں اٹھاتی جس کے سبب ظلم کرنے والوں کی مزید حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

عائشہ کے کیس میں بھی اگر غور کریں تو اُس کے والدین نے جسمانی تشدد پر کیس تو فائل کیا لیکن وقت پر اقدامات نہیں اٹھائے۔ خود کشی سے پہلے کی گئی فون کال میں والدہ اپنی بیٹی کو پہلا جملہ یہی کہتی ہے کہ ''دیکھ لوگ کیا کہیں گے‘‘ یہ محض ایک جملہ نہیں بلکہ معاشرے کا ایک ایسا ناسور ہے جو نا جانے کتنی زندگیوں کو تباہ کر چکا ہے۔ میری تنقید یہ نہیں کہ عائشہ کی ماں کو اپنی بچی کی فکر نہیں تھی، تنقید اس نکتہ پر ہے کہ اُس آخری لمحے جب اُس معصوم لڑکی کو اپنی ماں کے پیار کے بول کی ضرورت تھی اس وقت اس کی ماں کو لوگوں کی تنقید کی فکر تھی۔ ایسے ہی طعنے ہمارے معاشرے میں صرف خواتین کو ہی نہیں بلکہ مردوں کو بھی دیے جاتے ہیں۔

بہت سے لوگوں کے لیے شاید یہ بات حیرت کا سبب ہو  کہ پاکستان میں روزانہ 15 سے 30 لوگ خودکشی کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ مسئلہ صرف ترقی پذیر ممالک کا ہی نہیں بلکہ جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی اس مسئلہ میں الجھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح خود کشی کرنے والوں میں صرف وہ افراد نہیں ہوتے جنہیں کوئی دماغی بیماری لاحق ہو۔ اس لیے خودکشی کی وجوہات کو سمجھنا اتنا آسان نہیں۔ مگر افسوس صد افسوس کہ سماجی ذرائع ابلاغ پر لوگ اپنے تنقیدی ہتھیاروں سے لیس اس معصوم کی خودکشی کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔

مذہبی اسکالرز نے بھی اس پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ جہیز کا مطالبہ کرنا سراسرحرام ہے اور عورت پر ہاتھ اٹھانا کوئی مردانگی کی دلیل نہیں۔ لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان تعلیمات میں سے ہمیں صرف وہی پسند آتی ہیں جو ہمارے مطلب کی ہوں۔ ویسے تو ہم دینی تعلیمات کا پرچار خوب کرتے ہیں لیکن جب اپنے گھر کا معاملہ ہو تو ایک بار پھر وہی تاریخی جملہ دہرایا جاتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔

یہاں ہم عورت کو مظلوم نہیں کہہ رہے اس لیے کہ عورت ایک روپ میں مظلوم تو دوسرے روپ میں ظالم بھی ہے۔ چونکہ ماضی میں ساس کے ساتھ جو رویہ اُس کے سُسرال میں رکھا گیا تھا اب وہ بھی اپنی بہو کے ساتھ وہی رویہ رکھے گی۔ بیٹے کی شادی کے خواب دیکھتی ہے لیکن شادی کے بعد اس بیٹے کی زندگی میں صرف اس ڈر سے زہر گھولتی رہتی ہے کہ وہ اپنا زیادہ وقت بیوی کو نہ دے۔ دوسری طرف بیٹیوں والے بھی انہیں اپنے سر سے اتارنے پر تلے ہوئے ہوتے ہیں۔ پڑھا لکھا کر ہر فیصلے کی آزادی دے کر جب زندگی کے اہم فیصلے شادی کا وقت آتا ہے تو اُن کی رضا کو اہمیت نہیں دی جاتی اور پھر ساتھ ہی یہ مہر بھی ثبت کر دی جاتی ہے کہ ''تمھاری ڈولی یہاں سے جا رہی ہے وہاں سے اب تمہارا جنازہ ہی اُٹھے گا‘‘۔ عائشہ کا باپ اس کے سسرال والوں سے کہتا ہے کہ اب بیٹی تمہارے حوالے کردی، اب یہ تمہارے گھر کا معاملہ ہے۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ صرف لوگوں کی خوشیوں اور تماشوں کے لیے اکٹھا ہونا پسند کرتا ہے لیکن مشکل وقت میں کسی کے حق میں آواز اٹھانے کے لیے کھڑا ہونا پسند نہیں کرتا۔

ایسے معاملات میں اکثر اوقات یہی سمجھا جاتا ہے کہ اگرخواتین کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے تو اس کی روک تھام ممکن ہے۔ لیکن عائشہ بھی تو تعلیم یافتہ تھی پھر ایسا کیوں ہوا؟ بات صرف تعلیم و تربیت کی نہیں جب ایک پورا معاشرہ ہی برائی کو برائی نہ سمجھے، ظالم کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہ ہو تو پھر ایسے حادثات معمول بن جاتے ہیں۔ ایک معصوم لڑکی کو چار دن تک کمرے میں دوران حمل بھوکا پیاسا رکھا گیا، اس کو مار پیٹ کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے کردار پر بے بنیاد سوال اٹھائے گئے۔

یہ خودکشی نہیں بلکہ ایک قتل ہے۔ اس کا ذمہ دار صرف اس کا شوہر نہیں بلکہ اس کے گھر کی تمام خواتین اور پورا معاشرہ ہے۔ معاشرتی دباؤ کا شکار اس معصوم کا جملہ ''خدا سے دعا ہے کہ وہ انسانوں کی شکل مجھے کبھی دوبارہ نہ دکھائے‘‘ ہمارے سماج کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔