1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کی مرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہٌ‘

24 دسمبر 2019

صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے الزام میں سعودی ولی عہد کے اعلیٰ معاون ساتھیوں کی معافی کے عدالتی فیصلے کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی ہے لیکن امریکا نے اپنی اتحادی ملک سعودی عرب کی حمایت کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/3VIZ4
1. Jahrestag der Ermordung von Jamal Khashoggi
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Pitarakis

 

واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار خاشقجی کے گزشتہ سال استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں ہونے والے نہایت پُراسرار قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں پیر کو اگرچہ پانچ نامعلوم افراد کو سزائے موت اور تین دیگر افراد کو مجموعی طور پر 24 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم اس فیصلے سے سعودی عرب کے اس 'بدترین سفارتی بحران‘ کو روکنے کی کوششوں کی نشاندہی ہو رہی  ہے، جس نے ولی عہد محمد بن سلمان کی ساکھ کو عالمی سطح پر داغدار کیا اور ریاست کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی شدید جانچ پڑتال کی ضرورت پر زور دیا۔

یہ معاملہ اتنی آسانی اور جلدی سے حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اب بھی سعودی عرب کے لیے خاشقجی کیس ایک درد سر بنے رہنے کا امکان ہے جبکہ ریاض حکومت اور سعودی بادشاہت اگلے سال ریاض میں جی 20 سربراہی اجلاس سے قبل اپنی بین الاقوامی ساکھ کو بہتر کرنے کی ممکنہ کوششوں میں مصروف نظر آ رہی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ایک عہدیدار نے اس فیصلے کو مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں ''ایک اہم قدم‘‘ قرار دیا۔ اس عہدیدار نے مزید کہا ،''ہم ان پر مزید شفافیت اور ہر ایک جو اس کیس میں ملوث رہا ہے کے ساتھ احتساب کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔‘‘

1. Jahrestag der Ermordung von Jamal Khashoggi
جمال خاشقجی کی پہلی برسی: اُن کی منگیتر بھی شامل تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic

 

لیکن ترکی نے اس فیصلے کو ایک اسکینڈل قرار دیتے ہوئے اس پر تنقید کی ہے اور اسے ایک ''اندوہناک‘‘نتیجہ قرار دیا ہے کیونکہ انقرہ کا ماننا ہے کہ اس فیصلے میں اُن عناصر کو استثنٰی مل گیا ہے، جنہوں نے بظاہر قاتلوں کی پشت پناہی کی تھی۔

سعودی حکومت نے خاشقجی کے قتل کو ایک ''سرکش‘‘ کارروائی قرار دیا اور ریاض حکومت کے بقول ولی عہد  اس کارروائی سے بے خبر تھے۔ لیکن سی آئی اے اور اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی ایگنس کالامارڈ دونوں نے شہزادہ محمد کو براہ راست اس قتل سے جوڑا ہے۔ اس الزام کی سعودی بادشاہت سختی سے تردید کر رہی ہے۔ کالامارڈ نے تاہم اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا،''قصہ مختصر یہ کہ مجرموں کو سزا سنا دی گئی ہے۔‘‘ انہوں نے فیصلے کو ایک مذاق یا تمسخر قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب نے اپنے پیغام میں مزید لکھا،''ماسٹر مائنڈز نہ صرف آزاد پھرتے ہیں بلکہ انہیں بمشکل تفتیشی کارروائی اور احتساب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘

1. Jahrestag der Ermordung von Jamal Khashoggi
استنبول میں سعودی قونصل خانے کے باہر ترک پولیس تعیناتتصویر: picture-alliance/dpa/L. Pitarakis

 

سعودی استغاثہ نے کہا تھا کہ ڈپٹی انٹیلیجنس چیف احمد العسیری نے خاشقجی کے قتل کی نگرانی کی ہے اور امریکی وزیر خزانہ نے دعوٰی کیا ہے کہ شاہی عدالت کا میڈیا ''زار‘‘ سعود القحطانی اُس کارروائی کی منصوبہ بندی اور عملدرآمد کا حصہ تھا، جس کے نتیجے میں یہ قتل ہوا۔

سرکاری وکیل کے دفتر نے بتایا کہ قہطانی پر بھی تفتیش کی گئی لیکن ''ناکافی ثبوتوں کی وجہ سے‘‘ ان پر فرد جرم عائد نہیں کی گئی اور ڈپٹی انٹیلیجنس چیف احمد العسیری  پر بھی الزام تھا لیکن آخر کار انہی بنیادوں پر اُنہیں بھی بری کر دیا گیا۔ مغربی ذرائع کے مطابق ، یہ دونوں ساتھی یا ہمکار شہزادہ سلمان کے قریب ترین اندرونی حلقے کا حصہ تھے اور انہیں قتل پر باقاعدہ طور پر برخاست کر دیا گیا تھا  لیکن عدالتی سماعت کے دوران محض العسیری پیش ہوئے تھے۔

1. Jahrestag der Ermordung von Jamal Khashoggi
خاشقجی کے نام پر دی ہیگ کی ایک سڑک پر ایک سائن بورڈ نصب کیا گیا ہےتصویر: Getty Images/AFP/L. van Lieshout

 

بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے سینٹر فار مڈل ایسٹ پالیسی سے منسلک محقق تمارا کوف مین وٹس کے بقول،''بغیر کسی معقول عدالتی عمل کے مطلق العنان بادشاہت کا خفیہ مقدمہ نہ ہی منصفانہ ہے اور نہ ہی شفاف۔‘‘

انہوں نے مزید کہا،''حقیقی احتساب کے لیے ریاست (حکومت) کو اس سرکاری عمل کی ذمہ داری قبول کرنا ہوتی ہے۔‘‘ یہاں تک کہ امریکا میں بھی، اس فیصلے کو کچھ ارکان پارلیمنٹ کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ سینیٹر انگوس کنگ نے ایک بیان میں کہا ،''ہمارے )امریکا سعودی( دوطرفہ تعلقات میں کسی بھی سنجیدہ بہتری کے لیے انصاف اور احتساب کی اشد ضرورت ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید