1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کيا غزہ میں ہونے والے نقصانات کا ازالہ ممکن ہے؟

بیٹینا مارکس / امتیاز احمد25 ستمبر 2014

غزہ کا مستقبل کیا ہو گا؟ امریکی پروفیسر سارہ رائے کہتی ہیں کہ شاید اس مرتبہ غزہ کی تعمیر نو ممکن نہیں ہے۔ ان کے مطابق غزہ اور اس کے رہائشیوں کے زخم اتنے گہرے ہیں کہ ان کی شفایابی مشکل دکھائی دیتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1DKuv
تصویر: Said Khatib/AFP/Getty Images

امریکی شہر بوسٹن میں ہارورڈ یونیورسٹی کی پروفیسر سارہ رائے کا جرمنی کے دارالحکومت برلن میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس مرتبہ ’’ہر چیز مختلف ہے۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ تنگ ساحلی علاقے میں تقریباﹰ اٹھارہ لاکھ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی فوجی آپریشن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال میں جلد بہتری کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔ حالیہ تاریخ میں پہلی مرتبہ لوگوں کو اس طرح مہاجرت پر مجبور کیا گیا۔ سینکڑوں فلسطینی غزہ پٹی سے فرار ہو چکے ہیں۔ ان کو غزہ میں زیر زمین پھیلی ہوئی سرنگوں کے ذریعے مصر تک اسمگل کیا گیا اور پھر وہاں سے کشتیوں کے ذریعے بحرہ روم تک۔ امریکی شہر بوسٹن سے تعلق رکھنے والی پروفیسر کے مطابق، ’’لوگ بھاگ رہے ہیں، وہ غزہ کے ناقابل برداشت حالات سے فرار ہو رہے ہیں۔‘‘

Sara Roy Center for Middle Eastern Studies, Harvard University
مشرق وسطی اسٹڈیز کی پروفیسر سارہ رائے غزہ پٹی کے امور کے بارے میں ماہر سمجھی جاتی ہیں۔ وہ گزشتہ تیس برسوں سے فلسطینی معاشرے اور معیشت پر ریسرچ جاری رکھے ہوئے ہیںتصویر: DW/B. Marx

گزشتہ ہفتے مالٹا کے جزیرے کے قریب ایک کشتی ڈوب گئی تھی۔ اس پر تقریباﹰ 500 افراد سوار تھے، جن میں سے زیادہ تر تعداد فلسطینیوں کی تھی۔ سارہ رائے بتاتی ہیں کی ایسا پہلے کبھی بھی نہیں ہوا تھا، ’’پہلے بد ترین حالات میں بھی فلسطینی اپنا علاقہ چھوڑنے کا نہیں سوچتے تھے۔ اس مرتبہ تمام سیاسی کیمپوں بلکہ تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے فلسطینی نکل رہے ہیں۔ یہاں تک کہ حماس اور اسلامی جہاد میں شامل افراد کے رشتہ داروں نے بھی اپنے بچوں کو بیرون ملک بھیج دیا تھا تاکہ وہ اپنا مستقبل روشن بنا سکیں۔‘‘

متوسط ​طبقے کی تباہی

مشرق وسطی اسٹڈیز کی پروفیسر سارہ رائے غزہ پٹی کے امور کے بارے میں ماہر سمجھی جاتی ہیں۔ وہ گزشتہ تیس برسوں سے فلسطینی معاشرے اور معیشت پر ریسرچ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ حماس اور غزہ کے بارے میں بھی متعدد کتابیں اور تحقیقی رپورٹیں لکھ چکی ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حالیہ اسرائیلی حملے سے پہلے ہی گزشتہ آٹھ برس سے جاری غزہ کی ناکہ بندی کی وجہ سے معشیت تباہی کے دہانے پر تھی۔ وہ بتاتی ہیں جنگ سے پہلے غزہ پٹی میں بے روزگاری کی شرح چالیس فیصد تھی جبکہ اس کے بعد بڑھ کر پچاس فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ حالیہ بمباری کے دوران غزہ میں کم از کم 175 فیکڑیاں مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں، ان میں درمیانے درجے کی واحد فلور مِل اور ایک بسکٹ فیکٹری بھی شامل ہیں۔ ان فیکڑیوں میں کام کرنے والے ہزاروں فلسطینی بے روزگار ہو چکے ہیں۔

تعمیرنو پر کیا لاگت آئے گی؟

فلسطینی اتھارٹی کے اندازوں کے مطابق غزہ پٹی کی تعمیر نو پر کم از کم 7.8 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔ پوری کی پوری بستیوں کی تعمیر نو کی ضرورت ہے۔ بنیادی ڈھانچے، پانی کی فراہمی، سیوریج سسٹم ، صفائی، پاور پلانٹ اور توانائی کی لائنز بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ سارہ رائے کی نظر میں یہ رقم بہت کم ہے۔ شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ غزہ پٹی کی مکمل تعمیر نو انتہائی مشکل کام ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ غزہ میں ابھی تک سن 2009ء میں ہونے والی اسرائیلی بمباری کے نشانات دیکھے جا سکتے ہیں اور ابھی تک پرانے نقصانات کا ازالہ نہیں ہو پایا ہے۔ رائے کی نظر میں اسرائیل کی حالیہ بمباری نے غزہ کو نہ صرف اقتصادی بلکہ جسمانی طور پر بھی لاغر کر دیا ہے۔

ان کے رائے میں اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دی جانی چاہیے کی اسرائیل ہر مرتبہ بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرے اور بین الاقوامی برادی اس کی تعمیر نو کرے۔ اس سلسلے میں ان کا جرمن حکومت سے کہنا تھا، ’’جرمنی اور یورپی یونین کو خود سے لازمی طور پر یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ آیا ہمیں مستقبل میں بھی اس مسئلے کا ایک حصہ یا وجہ بننا چاہیے، تاکہ اس خطے کا مستقبل مزید تاریک ہو؟ یا پھر ہمیں ایسے اقدامات کرنے چاہییں ، جس سے اس مسئلے کا حل ممکن ہو۔‘‘

وہ کہتی ہیں کہ بین الاقوامی برادری کو مشرق وسطیٰ تنازعے کا سیاسی حل تلاش کرنا ہوگا اور اس میں غزہ کی ناکہ بندی کا خاتمہ بھی شامل ہے۔ صرف اور صرف اشیاء اور افراد کی آزادانہ نقل و حرکت ہی سے غزہ دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ فلسطینی ایک ’’انسانی المیہ‘‘ بن چکے ہیں۔ اکثریتی آبادی خوراک کی امداد اور خیرات پر انحصار کرتی ہے۔ ساڑھے چار لاکھ افراد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ تقریباﹰ چار لاکھ بچے جنگی صدمے کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان کے مطابق غزہ کا مسئلہ امداد کانفرنسوں سے حل نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے سیاسی حل کی ضرورت ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’ غزہ میں رہنے والے افراد کو انسانی مدد کی نہیں، آزادی کی ضرورت ہے۔‘‘