1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’کيا زرداری خاموشی سے فوج کے ساتھ روابط بہتر کر رہے ہیں؟‘

5 جون 2018

بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والی پاکستان کی مرکزی سیاسی جماعت، پاکستان پیپلز پارٹی انتخابات سے دو ہفتے قبل سیاسی میدان میں اپنی اہمیت  اور سیاسی وراثت کو برقرار رکھنے کی کوششوں ميں ہے۔

https://p.dw.com/p/2yyH3
Pakistan ehemaliger Staatsoberhaupt Asif Ali Zardaris Rückkehr
تصویر: DW/R. Saeed

بلاول بھٹو زرداری، بھٹو خاندان کے چشم و چراغ کی حیثیت سے اپنی پہلی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ اس نوجوان سیاست دان کی کوشش ہے کہ وہ  پاکستان کی دو مرتبہ منتخب وزیر اعظم اور اپنی والدہ بے نظير بھٹو کو ملنے والی سیاسی حمایت خود بھی حاصل کر پائیں۔ بے نظیر جب جلا وطنی کی زندگی گزار کر سن 2007 میں وطن لوٹیں تو انہیں ایک  دہشت گردانہ حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انتیس سالہ بھٹو، جو اپنی والدہ کی طرح برطانيہ کی معروف آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی میں ایک نئی روح پھونک رہے ہیں۔ پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمان کا کہنا ہے، ’’ہم امید کرتے ہیں کہ بلاول کی قیادت میں بہت سے نوجوان شدت پسندی، جمہوریت مخالف قوتوں اور ناقص گورننس جيسے مسائل کے خلاف ہمارے ساتھ شامل ہوں گے۔‘‘

اس جد وجہد میں بلاول کے والد آصف علی زرداری سرمایہ ہوں گے یا وہ اس جدوجہد میں خلل کا سبب بنیں گے، اسلام آباد میں آج کل یہ موضوع زیر بحث ہے۔ کچھ پارٹی کارکنان اور تجزیہ کاروں کی رائے میں مالی بدعنوانیوں کے الزامات کا سامنا کرنے والے زرداری انتخابات میں پی پی پی کے لیے مشکل پیدا کر سکتے ہیں۔ خاص طور پر جب مخالف سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کا سیاسی نعرہ مالی بدعنوانیوں سے نمٹنا ہی ہے۔ دوسری جانب  یہ بھی حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کے لیے طاقت کا حصول مستقبل میں پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے۔

ایک زمانے میں پاکستان کی سب سے مقبول ترین سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اب سیاسی طور پر اپنی اہمیت کو دوبارہ اجاگر کرنے کی مسلسل کوشش کر رہی ہے ۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں بلاول کی کرشماتی شخصیت کے بجائے زرداری کی کوئی ڈیل اس جماعت کو اقتدار میں حصہ دلوا سکتی ہے۔

تجزیہ کار عامر احمد خان کا کہنا ہے، ’’زرداری اپنے آپ کو انتخابات کے بعد ایک سہولت کار کے طور پر دیکھ رہے ہیں ناکہ انتخابات کے دوران ۔‘‘ پی پی پی اور پی ٹی آئی کے اراکین مستقبل میں سیاسی اتحاد کے حوالے سے اتنے پر جوش نہیں لیکن وہ اس ممکنہ اتحاد کے امکانات کو جھٹلاتے بھی نہیں سکتے۔‘‘

’مسٹر ٹین پرسنٹ‘

زردار ی نے قتل اور مالی بدعنوانی کے الزمات ميں اپنی زندگی کے گیارہ سال جیل میں کاٹے ہیں۔ زرداری پر یہ الزمات کبھی بھی ثابت نہیں ہو پائے تھے۔ انہیں سن 2004 میں جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔ زرداری پھر تین سال بعد بے نظیر بھٹو کے ساتھ جلا وطنی کی زندگی ختم کر کے پاکستان پہنچے تھے۔ بے نظیر جنرل مشرف کی حکومت کے خاتمے اور اپنے وزیر اعظم بننے کے عزم کے ساتھ واپس لوٹی تھیں۔ لیکن ان کا یہ خواب پورا نہ ہو پایا۔ پاکستان واپسی کے تین ماہ بعد وہ ایک حملے میں ماری گئیں۔ ایک انتہائی درد ناک واقعہ جس کے بعد دنیا میں پاکستانی بھٹو خاندان  کا موازنہ امریکا کے کینيڈی اور بھارت کے گاندھی خاندان سے کیا گیا۔

بے نظير بھٹو کی وطن واپسی اور ان کے قتل کے بعد بھی اس سیاسی لیڈر کو عوامی حمایت حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سن 2008 کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی اور زرداری بطور صدر منتخب ہو گئے۔ اسی سیاسی جماعت کے سینئر رکن سینیٹر فرحت اللہ بابر نے روئٹرز کو بتایا، ’’زرداری منفی پراپیگینڈا کا نشانہ بنے ہیں۔‘‘

’کنگ میکر‘

اس سال انتخابی عمل سے قبل پاکستان کی طاقت ور فوج کو مسلم لیگ نواز  کو غیر مستحکم کر کے عمران خان ککی حمايت کرنے کا الزام ہے۔ بابر نے روئٹرز کو بتایا،’’ ہم انتخابات سے قبل دھاندلی دیکھ رہے ہیں، تمام سیاسی جماعتوں کے لوگ ایک ہی سیاسی جماعت میں شامل ہو رہے ہیں۔‘‘ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے مطابق نواز شریف کے آرمی جرنیلوں کے ساتھ تعلقات شدید تناؤ کا شکار ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پی ایم ایل این کے قانون دانوں پر پارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہونے کا دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔

فوج، جس نے پاکستان میں تیس سال سے زیادہ عرصے تک حکومت کی ہے، ان الزمات کو مسترد کرتی ہے اور عمران خان بھی فوج کے ساتھ کسی خفيہ ڈیل سے انکار کرتے ہیں۔

پی پی پی کا کہنا  ہے کہ بلاول اپنی انتخابی مہم میں شدت پسندی اور عدم برداشت کے خاتمے کی بات کریں گے۔ ايسے ہی مسائل کی وجہ سے پاکستان دس سال سے تشدد اور تنازعات کا سامنا کر رہا ہے۔ سینیٹر اعتزاز احسن کا کہنا ہے،’’ پاکستان پیپلز پارٹی یہ بتائے گی کہ یہ سیاسی جماعت مذہب کے حوالے سے تفریق نہیں کرتی۔‘‘

پی پی پی کو سندھ میں تو کافی حمایت حاصل ہے لیکن گیلپ کے ایک سروے کے مطابق اس سال مارچ میں قومی سطح پر 36 فیصد افراد مسلم لیگ نون، 24 فیصد پاکستان تحریک انصاف اور صرف 17 فیصد افراد پاکستان پیپلز پارٹی کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ حزب اخلاف کی جماعتیں اتحاد بنا سکتی ہیں۔

اسلام آباد میں کچھ افراد کی رائے میں زرداری خاموشی سے فوج کے ساتھ روابط بہتر کر رہے ہیں۔ مارچ میں ان پر شک اس وقت بڑھا جب پی پی پی نے سینیٹ میں قیادت سنبھالنے سے انکار کر کے فوج کے پسندیدہ شخص کو سینیٹ کا چیئرمین منتخب کرنے میں مدد کی۔ تجزیہ کار عامر خان نے کہا،’’زرداری کو یقین ہے کہ جب حکومت قائم کرنے کا وقت آئے گا، تو زرداری جیسے کسی شخص کی ضرورت پڑے گی اور وہی ’کنگ میکر‘ بن جائیں گے۔‘‘

ب ج/ ع س (روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں