1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کيا بھارت کا چين پر انحصار ختم ہو سکتا ہے؟

7 جولائی 2020

بھارت اور چين کے درميان سرحدی کشيدگی تجارت اور اقتصادی روابط پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ ماہرين کا ماننا ہے کہ دونوں ملکوں کے باہمی معاشی تعلقات کو مد نظر رکھتے ہوئے، يہ کشيدگی دونوں کے ليے خاصی نقصان دہ ثابت ہو گی۔

https://p.dw.com/p/3ethb
Unterstützer der indischen Regierung verbrennen Chinas Fahne
تصویر: Reuters/Sivaram V

لداخ اور سکم ميں چينی اور بھارتی افواج کے مابين حاليہ جھڑپوں اور کشيدگی کے بعد بھارت ميں داخلی سطح پر چين مخالف جذبات ميں خاصا اضافہ نوٹ کيا گيا ہے۔ کئی حلقوں ميں چينی اشياء  و مصنوعات پر مکمل پابندی کے مطالبات سامنے آ رہے ہيں۔ سڑکوں پر عوام کے جذبات اور ذرائع ابلاغ پر نشر کردہ مواد ميں 'چين کو سبق سکھاؤ‘ کا پيغام واضح ہے۔

پير چھ جولائی کو نئی دہلی حکومت نے انسٹھ چينی ايپس پر پابندی کا اعلان کيا۔ ان ميں عالمی سطح پر مشہور اسمارٹ فون ايپ ٹِک ٹاک بھی شامل ہے۔ ايسی اطلاعات بھی ہيں کہ چينی کمپنيوں کو شاہراہوں پر تعميراتی منصوبوں ميں کام کاج سے روکا جا رہا ہے۔ چھوٹے اور درميانے درجے کی کمپنيوں ميں چينی سرمايہ کاری کو بھی رکوا ديا گيا ہے۔ علاوہ ازيں اطلاعات ہيں کہ بھارتی بندرگاہوں پر چينی ساز و سامان کو رکوا ديا گيا ہے اور حکام ان پر اضافی محصولات عائد کرنے پر غور کر رہے ہيں۔ 'دا انڈيئن ايکسپريس‘ کے مطابق چين ميں بھارتی برآمدات کو بھی کچھ ايسے ہی برتاؤ کا سامنا ہے۔

امريکی جانز ہاپکنز يونيورسٹی سے وابستہ بين الاقوامی اقتصادی امور کے ماہر پراوين کرشنا کا کہنا ہے کہ تجارتی کشيدگی چاہے علامتی ہی کيوں نہ ہو، کاروبار و اقتصاديات کے ليے اچھی نہيں۔ ڈی ڈبليو سے بات چيت ميں انہوں نے کہا فی الوقت يہ واضح نہيں کہ کون کون سا سامان بندرگاہوں پر روکا جا رہا ہے اور اسے کتنی مدت کے ليے روکا جائے گا۔ اس کا کاروبار پر اثر آئندہ چند دنوں ميں واضح ہو جائے گا۔ ان کے بقول زيادہ تر کاروبار کچھ تاخير تو سہ ليں گے مگر مکمل پابندی برداشت نہيں کر پائيں گے۔

Indien Himalaya Ladakh Besuch von Narendra Modi
تصویر: Reuters/ANI

گو کہ اس وقت بھارت ميں رائے عامہ چينی مصنوعات پر پابندی کے حق ميں ہے، ماہرين کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے تجارتی و اقتصادی روابط کو مد نظر رکھتے ہوئے يہ پابندی دونوں کے مفاد ميں نہيں۔ سن 2018 اور 2019ء ميں بھارت اور چين کے مابين باہمی تجارت کا حجم اٹھاسی بلين ڈالر رہا۔ تاہم اس تجارت ميں بھارت کو ساڑھے ترپن بلين ڈالر کے خسارے کا سامنا رہا، جو کسی بھی ملک کے ساتھ بھارت کا سب سے بڑا تجارتی خسارہ ہے۔

چين بھارت کے ليے درآمدات کا بھی سب سے بڑا ذريعہ ہے۔ تين ہزار سے زائد چينی مصنوعات بھارت برآمد کی جاتی ہيں۔ اس کے علاوہ بھارت چينی سرمايہ کاری کا بھی گڑھ بنتا جا رہی ہے۔ بھارت ميں ڈليوری ايپ 'زوماٹو‘ اور رقم کی ادائيگی والی ايپ پيٹم ميں بھاری چينی سرمايہ کاری ہے۔ بھارت ميں چين کی موجودہ اور مستقبل کی سرمايہ کاری چھبيس بلين ڈالر کے لگ بھگ ہو سکتی ہے۔

بھارتی امور کے ماہر اور انڈيانا يونيورسٹی بلومنگٹن کے پروفيسر سمت گنگولی کے مطابق بھارتی بندرگاہوں پر چينی مصنوعات کے پھنسنے سے بھارتی کاروبار اور مينوفيکچرنگ کا شعبہ متاثر ہو گا۔ ان کے بقول کئی اشياء کی تياری ميں چينی پرزے درکار ہوتے ہيں۔  پروفيسر گنگولی نے ڈی ڈبليو سے بات چيت ميں مزيد کہا کہ چين پر انحصار فوری طور پر ختم ہونا ممکن نہيں۔

مبصرين کا کہنا ہے کہ تجارتی کشيدگی دونوں ملکوں کے ليے نقصان دہ ہو گی۔ دونوں ہی ممالک پہلے ہی کووڈ انيس کی وبا سے بھی بری طرح متاثر ہيں اور اس کے اقتصادی نتائج سے نمٹنے کی کوششوں ميں ہيں۔

ع س / ع آ )شرينواس مازمداس(