1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کوہستان میں غیرت کے نام پر قتل کا معاملہ سپریم کورٹ میں

7 جون 2012

پاکستان میں عدالت عظمیٰ نے حکومت سے ان چار خواتین سے متعلق تحقیقات کرنے کا کہا ہے، جنہیں قبائلی روایات کی خلاف ورزی کرنے کی پاداش میں مبینہ طور پر قتل کیا جا چکا ہے۔

https://p.dw.com/p/159rx
تصویر: picture-alliance/dpa

پاکستان کے شمال مغرب میں واقع پہاڑی علاقے کوہستان کی ان چار خواتین کی ایک ایسی ویڈیو منظر عام پر آئی ہے، جس میں وہ ایک گھر میں بیٹھی مقامی زبان میں گانا گا رہی ہیں اور ایک مقامی لڑکا رقص کر رہا ہے۔ اس ویڈیو کی عکاسی ایک دوسرے لڑکے نے اپنے موبائل فون کے ذریعے کی ہے، جو کہ رقص کرنے والے لڑکے کا بھائی بتایا جاتا ہے۔ خیبر پختونخوا کے اس قدامت پسند علاقے میں خواتین کے پردے کا بہت زیادہ خیال رکھا جاتا ہے اور اس طرح مردوں کی موجودگی میں ان کے گانے کو انتہائی غیر مناسب قرار دے کر گانا گانے والی لڑکیوں کو مبینہ طور پر قتل کر دیا گیا ہے۔ اس بات کا دعویٰ رقص کرنے والے لڑکے کے بھائی افضل خان نے کیا ہے۔ افضل خان نے پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں صحافیوں کو بتایا کہ ایک قبائلی جرگے کے حکم پر ان لڑکیوں کو 30 مئی کے دن ہلاک کیا جا چکا ہے اور اب وہ اپنی اور اپنے بھائی کی جان کے لیے خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔

Wahlen in Afghanistan
کوہستان خیبر پختونخوا کے ان قدامت پسند علاقوں میں شامل ہے جہاں خواتین کے پردے پر بہت زور دیا جاتا ہےتصویر: AP

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس واقعے نے پاکستان کے قدامت پسند معاشرے میں غیرت کے نام پر قتل کے مسئلے کو ایک مرتبہ پھر اجاگر کیا ہے۔ روئٹرز کے مطابق پاکستان میں اس قسم کی صورتحال میں خاندان، افراد یا قبیلے اکثر انصاف کا معاملہ اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں۔ روئٹرز نے اس ضمن میں جنوبی پنجاب میں مختاراں مائی سے اجتماعی زیادتی کے واقعے اور پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کے قتل جیسے واقعات کی مثالیں پیش کی ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق محض گزشتہ برس غیرت کے نام پر ایک ہزار خواتین کو قتل کیا گیا۔ آزاد ذرائع کے مطابق ہلاکتوں کی درست تعداد اس سے بھی زائد ہے۔

روئٹرز کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک سے لے کر خیبر پختونخوا کی مقامی پولیس بھی کوہستان کے تازہ واقعے سے بے خبر رہی تھی۔ رحمان ملک کا گزشتہ روز کہنا تھا کہ ان کی معلومات کے مطابق ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا، ’’چیف جسٹس کا حکم درست ہے کہ اگر یہ لڑکیاں زندہ ہیں تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔‘‘

بعض ذرائع اس ویڈیو کی صحت پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں، جس میں ان لڑکیوں کو گانا گاتے اور لڑکے کو رقص کرتے دکھایا گیا ہے کیونکہ مبینہ طور پر کسی بھی ایک فریم میں دونوں کو ایک ساتھ نہیں دکھایا گیا۔ ایک حکومتی اہلکار خالد عمرزئی نے روئٹرز کو بتایا کہ خراب موسم کے سبب گزشتہ روز کوہستان کے اس گاؤں تک رسائی ممکن نہیں ہو سکی، جہاں مبینہ طور پر یہ واقعہ پیش آیا ہے۔

(sks/ hk (Reuters