1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا کے خلاف جنگ: طبی شعبے میں عزم و ہمت کی کہانیاں

13 اپریل 2020

پاکستان کو کورونا وائرس کی صورت میں ایک بڑے بحران کا سامنا ہے اور وسائل کی قلت اس بحران کی سنگینی میں مزید اضافے کا باعث بن رہی ہے لیکن اس سب کے باوجود ہیلتھ سیکٹر میں سب برا نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/3aqER
Pakistan Multan | Coronavirus | Nishtar-Krankenhaus
تصویر: DW/privat

پاکستان میں ڈاکٹروں اور نرسوں سمیت کورونا وائرس کا شکار ہونے والے طبی عملے کی تعداد ایک سو سے تجاوز کر چکی ہے لیکن وسائل کی کمی اور مشکلات کے باوجود ملک کے میڈیکل کے شعبے سے وابستہ بہت سے طبی اہلکار فرض شناسی، بے خوفی اور مریضوں کی خدمت کی شاندار داستانیں رقم کر رہے ہیں۔

میں اکیلا نہیں

ڈاکٹر محمد عثمان بہاولپور کے وکٹوریہ ہسپتال میں کام کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس ڈر کر بیٹھ جانے اور ڈیوٹی سے جان چھڑانے کے سو بہانے تھے لیکن انہوں نے منظر سے غائب ہوجانے کی بجائے کورونا کا مقابلہ کرنے کو ترجیح دی: ''اس طرح کےجذبات رکھنے والا میں اکیلا نہیں ہوں۔ ہمارے ہاں ایمرجنسی میں کورونا کا ایک مشتبہ مریض لایا گیا جس میں کورونا کی 90 فیصد علامات موجود تھیں۔ ہم 25 لوگوں کی ٹیم تھے۔ ہم نے اس کو اٹینڈ کیا، مگر وہ جانبر نہ ہو سکا اور میرے ہاتھوں میں اس کی وفات ہوئی۔ لیکن میرا کوئی کولیگ نہیں ڈرا بلکہ سب ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ اب میری صورتحال یہ ہے کہ گھر میں میرا کمرہ الگ ہے۔ میں اپنی فیملی کے ساتھ کہیں نہیں جا سکتا۔ میرا کھانا ڈسپوزایبل برتنوں میں آتا ہے لیکن یہ ایک وقت ہے جو بہرحال گذر ہی جائے گا۔‘‘

پاکستان ریلوے کی ’ قرنطینہ ٹرین‘

اپنے ہی گھر میں اجنبی

ڈاکٹر عبادالرحمان لاہور کے شیخ زید ہسپتال میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر کام کرتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب سے کورونا کا بحران شروع ہوا ہے، ان کے معمولات بہت بدل گئے ہیں: ''میں سارا دن ہسپتال میں مریضوں کے درمیان رہتا ہوں جہاں مشتبہ مریض ابتدائی اسکریننگ کے لیے لائے جاتے ہیں۔ مجھے اس بات کا احساس رہتا ہے کہ کہیں میں اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے دوران خود ہی وائرس کا شکار نہ ہو جاؤں۔ اس لیے دفتری اوقات کے بعد میں نے اپنے آپ کو گھر میں تقریباﹰ آئسولیٹ کر رکھا ہے۔ میں گھر کے ایک الگ کمرے میں رہتا ہوں۔ میں ہسپتال سے واپسی پر گھر کے مین حصے میں داخلے سے پہلے اپنے جوتے اور کپڑے تبدیل کرتا ہوں۔ میرے پاس ایک گاڑی ہے میں اسے بھی اپنے گھر کے افراد کے ساتھ شئیر نہیں کرسکتا۔ مجھے باقاعدگی سے گھر، گاڑی اور اپنے آپ کو'ڈس اینفیکٹ‘ کرنا پڑتا ہے۔ گھر کا سربراہ ہونے کی وجہ سے میرے لیے گھر سے باہر رہائش اختیار کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس صورتحال میں بھی میں باقاعدگی سے ہسپتال جاتا ہوں، وارڈز کے راؤنڈ کرتا ہوں۔ ایمرجنسی کالز پر بھی بار بار وزٹ کرتا ہوں۔ ہم اس کام میں کوتاہی نہیں کر سکتے۔ میری اس روٹین سے میرے جونئیر کولیگز کو حوصلہ ملتا ہے۔ ہم اپنے آپ کو بھی سنبھال رہے ہیں اور اپنے مریضوں کو بھی بہتر طبی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر عباد نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ہمیں حکومت کی طرف سے حفاظتی کٹس بھی ملی ہیں لیکن ہم نے حفاظتی امور کے حوالے سے اپنے چھوٹے عملے کی حفاظت کو بھی یقینی بنایا ہے۔

ہسپتال میں ایسٹر

نشتر ہسپتال ملتان کی ایک سٹاف نرس صائمہ یامین نے بتایا کہ ان کے ہسپتال میں ایک مریض میں کورونا کی علامات در آنے پر جب بہت سے لوگ اس کے پاس جانے سے ہچکچا رہے تھے تو اس صورتحال میں ان کے ساتھی میل سٹاف کے دو ارکان زاہد غوری اور علی رضا نے اس کی سانس اکھڑنے پر سی پی آر کے ذریعے اس کی سانس بحال کرنے کی تگ و دو کی۔ ان کے بقول زاہد غوری مسیحی برادری سے تعلق رکھنے ہیں اور کورونا کے مریض کی خدمت کی وجہ سے انہیں کچھ دیر کے لیے آئسولیشن میں بھی جانا پڑا: ''وہ ایسٹر کے دن بھی ہسپتال میں ہی تھے۔ ہمارے کہنے پر ان کا جواب تھا کہ ہسپتال میں موجود لوگ بھی ان کے لیے فیملی کی طرح ہی ہیں۔ ان کو نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس پر ہم نے کیک منگوا کر ان کے ساتھ کاٹا اور انہیں ایسٹر کی مبارکباد دی۔‘‘

ناقابل یقین بہادری

ڈاکٹر فیصل ملک لاہور میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ہیں۔ سارے آئسولیشن وارڈز اور قرنطینہ سنٹرز کی نگرانی، کورونا وائرس کے مریضوں کی شفٹنگ اور سیمپلنگ سمیت وہ بہت سے امور کی فیلڈ میں نگرانی کر رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''چند دن پہلے مجھے کورونا کے مشتبہ مریضوں کے ٹیسٹ کے سیمپل لینے کے لیے رائیونڈ جانا پڑا۔ وہاں چار سو کے قریب لوگ تھے اور وہاں سے کورونا کے پازیٹو کیسز بھی نکل رہے تھے۔ لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ اپنے ہم وطنوں کو کورونا کی بیماری سے بچانے کا جذبہ ہی فیلڈ میں ایسا کام کرنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ اس کے بغیر کورونا کو شکست دینا ممکن ہی نہیں ہے۔‘‘

بلوچستان وبا سے کيسے نمٹ رہا ہے؟ وزير اعلیٰ جام مير کمال کا خصوصی انٹرويو

والدین کو تسلی

نشتر ہسپتال میں خدمات سرانجام دینے والی ڈاکٹر عرشیہ نے بتایا کہ آئسولیشن وارڈ میں ڈیوٹی کے دوران ان کے پاس این نائنٹی فائیو ماسک نہیں تھا اورملتان شہر کے سب اسٹورز سے بھی یہ ماسک نہیں مل رہے تھے: ''ان حالات میں ہم لوگ ایسے مریضوں کو دیکھ رہے تھے جن میں کورونا کی واضح علامات موجود تھیں۔ اس موقعے پر ہمیں ڈر تو لگا لیکن پھر یہ سوچ کر ہم مریضوں کی خدمت میں ڈٹ گئے کہ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ وسائل کی کمی کو مریضوں کے علاج میں حائل نہ ہونے دیا جائے۔ ہم ڈبل ماسک پہن کرکام کرتے رہے۔ میں نے اگلی صبح ناشتے کی میز پر اپنے گھر والوں کو یہ بات بتائی تو میرے والد نے مجھے نوکری چھوڑنے کا مشورہ دیا۔ میں نے اس صورتحال میں اپنے آپ کو بھی سنبھالا، والدین کو بھی تسلی دی اور اپنا جذبہ بھی کم نہیں ہونے دیا۔ میں اب بھی ہسپتال میں موجود ہوں۔‘‘

آنے والے مہمان کی فکر

شائستہ مدثر(فرضی نام) لاہور کے ایک سرکاری ہسپتال میں بطور سٹاف نرس کام کر رہی ہیں۔ ان کی ڈیوٹی کورونا وائرس کے حوالے سے بنائے جانے والے آئسولیشن وارڈ میں لگی ہوئی ہے۔ وہ امید سے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنا کام باقاعدگی کہ ساتھ ذمہ داری سے کر رہی ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، '' ہسپتال میں سہولتوں کی کمی ہے۔ جو حفاظتی سامان ہے وہ زیادہ تر با اثر لوگوں کے حصے میں ہی آتا ہے۔ اس لیے کبھی کبھی میرے گھر والے خوف زدہ ہو جاتے ہیں کہ ان حالات میں فرائض کی ادائیگی کہیں اس دنیا میں آنے والے ننھے مہمان کے لیے خدانخواستہ کسی مشکل کا باعث نہ بن جائے۔‘‘

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں