1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا وائرس کی ابتدا کیسے ہوئی؟ ماہرین چین کے دورے پر

11 جنوری 2021

عالمی ادارہ صحت کے ماہرین رواں ہفتے چین پہنچ رہے ہیں، جہاں وہ کورونا وائرس کی ابتدا اور اس کے پھیلاؤ کے بنیادی اسباب کے بارے میں تحقیقات کریں گے۔ اس بارے میں چھان بین کا عمل ایک عرصے سے متوقع تھا۔

https://p.dw.com/p/3nmDj
Global 3000 | China: Wuhan ein Jahr nach dem Corona-Ausbruch
تصویر: ZDF

چینی حکام نے پیر کو اس امر کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ ڈبلیو ایچ او کے تحقیقاتی کمیشن کے ماہرین آئندہ جمعرات کو اپنے چینی ہم منصبوں سے ملاقات کریں گے۔ بیجنگ حکومت کی طرف سے تاہم اس مختصر بیان کے علاوہ اس بارے میں مزید کوئی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔

یہ امر بھی فی الحال واضح نہیں کہ عالمی ادارہ صحت کے ماہرین چین کے مرکزی شہر ووہان بھی جائیں گے یا نہیں؟ یاد رہے کہ یہی وہ چینی شہر ہے، جہاں  2019 ء کے اواخر میں سب سے پہلے مہلک کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔

عرصے سے متوقع دورہ

عالمی ادارہ صحت اور چینی حکومت کے مابین اس دورے کے بارے میں ایک طویل عرصے سے مذاکرات جاری تھے۔ ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہانوم نے گزشتہ ہفتے اس دورے میں مسلسل تاخیر پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈبلیو ایچ او کی اس ٹیم میں شامل مختلف ممالک کے ماہرین اپنے اپنے ممالک سے چین کے دورے کے لیے نکل چُکے ہیں اور ایسا عالمی ادارے اور بیجنگ حکومت کے مابین طے شدہ ایک پلان  اور انتظام کے تحت کیا گیا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کی تفتیش کے مطابق چینی حکومت نے اپنے ہاں وائرس کے پھیلاؤ کی ابتدا سے ہی اس سلسلے میں ہر قسم کی خبروں اور تحقیق پر سخت کنٹرول کر رکھا ہے۔ دوسری جانب چین کا سرکاری میڈیا اس قسم کے مفروضے پھیلاتا رہا ہے کہ کورونا وائرس کی ابتدا کہیں اور سے بھی ہو سکتی ہے۔

China I Virologin Shi Zhengli in Wuhan
چینی وائرولوجسٹس ووہان کی لیبارٹری میں۔تصویر: Johannes Eisele/AFP/Getty Images

ایسوسی ایٹڈ پریس کی چھان بین کے مطابق بیجنگ حکومت ایک طرف ان مقامی محققین کو لاکھوں ڈالر فراہم کر رہی ہے، جو کورونا وائرس کی ابتدا کے بارے میں تحقیق پر مامور ہیں۔ دوسری جانب ان کی تحقیق کے نتائج کو سخت کنٹرول بھی کیا جا رہا ہے اور کسی بھی تحقیق کے نتائج کو اشاعت سے پہلے چینی کابینہ کے زیر انتظام ایک ٹاسک فورس سے منظوری حاصل کرنا ہوتی ہے۔ یہ ٹاسک فورس براہ راست چینی صدر شی جن پنگ کے زیر نگرانی کام کرتی اور ان کے احکامات بجا لاتی ہے۔

'رازداری کی ثقافت‘

خیال کیا جا رہا ہے کہ چین کی رازداری کی ثقافت کے سبب کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے متعلق انتباہی پیغامات میں تاخیر ہوئی اور اسی سبب کورونا وائرس کے بارے میں ڈبلیو ایچ او کے ساتھ معلومات کے تبادلے میں بھی سخت رکاوٹ ڈالی گئی۔

 اس سلسلے میں آسٹریلیا اور دیگر ممالک نے کورونا وائرس کی ابتدا اور اس کے پھیلنے کی اصل جگہ کے بارے میں تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا تھا، جو بیجنگ حکومت کی ناراضی کا  سبب بنا اور اس پر چین کی طرف سے سخت رد عمل سامنے آیا۔

China | Wuhan | Rückblick nach Ausbruch Coronavirus
ووہان کا شاپنگ سینٹر لاک ڈاؤن میں۔تصویر: Aly Song/REUTERS

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس کے بیانات کے بعد چین کی وزارت خارجہ نے کہا کہ چین کے دروازے ڈبلیو ایچ او کی تحقیقاتی ٹیم کے لیے کُھلے تھے تاہم وہ '' اس سلسلے میں متعلقہ ضروری انتظامات، ان کے طریقہ کار اور ٹھوس منصوبے پر کام کر رہی تھی۔‘‘ چینی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان ہوا چون ژنگ کا کہنا تھا،''ہمارے ماہرین انتہائی بوجھ کے باوجود اس وباء کے خلاف دل کی گہرائیوں سے لڑنے اور اس پر قابو پانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘‘

دریں اثناء اقوام متحدہ کے ایک ترجمان اسٹیفن دوجاریک نے نیویارک میں اس عالمی ادارے کے ہیڈکوارٹرز میں ایک بیان دیتے ہوئے کہا،''یہ امر غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کہ کورونا کے خلاف جنگ میں ڈبلیو ایچ او قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کورونا وائرس کی ابتدا اور اس کی جڑوں تک پہنچنے کی بھی کوشش میں غیرمعمولی کردار ادا کر رہا ہے۔ اس سے اگلے وائرس کے روک تھام میں مدد ملے گی۔‘‘

ک م/ اا (اے پی، اے ایف پی)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں