1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا وائرس، جرمن گرجا گھر کیسے نمٹ رہے ہیں؟

31 مارچ 2020

کورونا وائرس کی وجہ سے جرمنی میں زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوا ہے۔ اسی طرح گرجا گھروں کو بھی اس کے اثرات سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ جرمنی میں پادری اب تین ملین عبادت گزاروں تک پہنچنے کے لیے متبادل ذرائع استعمال کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3aFY2
Trier | Live-Übertragung Gottesdienst
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Trier

کورونا وائرس کے پھیلاؤکے تناظر میں جرمنی میں جاری لاک ڈاؤن کی زندگی سے گرجا گھر بھی ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ جرمنی میں چرچز اور دیگر مذہبی اداروں کو وائرس کے ممکنہ پھیلاؤ کے تناظر میں بند کیا جا چکا ہے اور روز مرہ کی مسیحی سروسز بھی نہیں ہو رہی ہیں۔ 

مشرقی جرمن شہر لائپزگ میں ایوانگلیلیکل ریفارمڈ چرچ سے وابستہ سیلمیٰ ڈورن  کا کہنا ہے کہ اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کا کام بڑھ گیا ہے، کیوں کہ اب انہیں اس چرچ کا رخ کرنے والے افراد کے ساتھ فرداً فرداً رابطہ کرنا پڑ رہا ہے۔

29 سالہ ڈورن جرمنی کی دیگر مذہبی برادری کی طرح اس صورت حال سے نمٹنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ یہاں خواتین ایک کافی میٹنگ میں باقاعدہ سے شرکت کیا کرتیں تھیں، جس میں زیادہ تر خواتین کی عمریں 75 برس سے زائد تھیں اور اسی عمر کے افراد کورونا وائرس کے زیادہ خطرے کا سامنا کر رہے ہیں۔

مہاجرین کے لیے چرچ میں پناہ

ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں ڈورن نے کہا، ’’ہم کافی روز سے اس معاملے پر الجھن کا شکار تھے کہ باقاعدگی سے ہونے والی اس ملاقات کو کیسے منسوخ کیا جائے۔ مگر ہمیں منسوخ کرنا پڑا۔‘‘

اس کی منسوخی کے لیے ڈورن کو کالز کرنا پڑیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس ملاقات میں مدعو خواتین میں سے کچھ کے ساتھ تو ان کی گفت گو محض چند منٹ کی تھی، مگر چند ایک کےساتھ بات چیت ایک گھنٹے سے بھی زیادہ طویل وقت تک ہوتی رہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے کئی خواتین ایسی ہیں، جن کے لیے یہی ملاقات بیرونی دنیا سے رابطے کا واحد ذریعہ تھی اور وہ اس ملاقات کی راہ دیکھا کرتی تھیں۔

جرمنی میں گزشتہ دو ہفتوں سے باقاعدہ چرچ سروس معطل ہے جب کہ دیگر مذہبی رہنماؤں کی طرح ڈورن کے پاس بھی چرچ آنے والوں سے رابطے کا واحد آلہ فون بچا ہے۔

مغربی جرمن شہر ڈوسلڈورف کے قریب واقع علاقے اوبرہاؤزن کے کیتھولک پادری کرسٹوف ویشمان کا کہنا ہے، "ہماری چرچ سروس معطل ہے۔ اس لیے اب دن کا زیادہ تر وقت لوگوں سے بات کرنے یا یومیہ پچیس سے تیس ای میلز کا جواب لکھنے میں خرچ ہوتا ہے۔"

ان کا کہنا ہے کہ وہ اس سے قبل شہر کے سینٹ پانکراتیوس چرچ میں روزانہ عبادتی سروس میں موجود ہوتے تھے، جس میں دو  یا تین درجن کے قریب عبادت گزار آتے تھے اور ان میں بڑی تعداد معمر افراد کی ہوا کرتی تھی، مگر جلد ہی ویشمان کو معلوم ہوا کہ شاید وہ ان میں سے کئی کو کبھی دوبارہ نہ دیکھ سکیں۔

مگر وہ فون کے ذریعے اب بھی ان سب سے جڑے ہوئے ہیں۔ ویشمان اور دیگر پادری ان عبادت گزاروں کو فون کرتے ہیں اور ان کے لیے دعاکرتے ہیں۔

بہت سے مقامات پر اب روزانہ چرچ کی گھنٹیاں بجائی جاتی ہیں اور رضاکاروں کو تہنیتی کارڈز بھیجے جاتے ہیں، جو معمر افراد کے لیے ضروریات کا سامان خرید کر ان کے گھروں میں پہنچاتے ہیں، جب کے ان معمر افراد کی تنہائی کو دیکھتے ہوئے انہیں کالز  بھی کی جاتی ہیں اور ان سے باتیں کر کے ان کی تنہائی بانٹی جاتی ہے۔

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔

کرسٹوف شٹراک / ع ت / ع ا