1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا وائرس: اس سال کوئی انڈونیشی شہری حج نہیں کرے گا

2 جون 2020

سب سے بڑی مسلم اکثریتی آبادی والے ملک انڈونیشیا سے اس سال کوئی شہری حج کرنے سعودی عرب نہیں جائے گا۔ یہ اعلان جکارتہ میں مذہبی امور کی قومی وزارت نے کیا۔ اس سال تقریباﹰ سوا دو لاکھ انڈونیشی مسلمانوں کو حج کرنا تھا۔

https://p.dw.com/p/3d8DJ
تصویر: Reutesr/W. Ali

انڈونیشی دارالحکومت جکارتہ سے منگل دو جون کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق انڈونیشیا دنیا کا سب سے بڑی مسلم اکثریتی آبادی والا ملک ہی نہیں بلکہ ہر سال حج کے لیے سعودی عرب جانے والے مسلمانوں میں انڈونیشی حجاج کی تعداد کسی بھی دوسرے ملک کے حاجیوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔

اس سال حج کے لیے مجموعی طور پر دو لاکھ 20 ہزار سے زائد انڈونیشی مردوں اور عورتوں کو مکہ جانا تھا۔ لیکن اب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ رواں برس حج کے لیے کوئی انڈونیشی شہری سعودی عرب نہیں جائے گا۔ ملکی وزارت برائے مذہبی امور کے مطابق حکومت نے یہ فیصلہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے پیش نظر کیا ہے۔ یہ وبا دنیا بھر میں اب تک تقریباﹰ 62 لاکھ 75 ہزار انسانوں کے بیمار پڑ جانے اور تقریباﹰ تین لاکھ 76 ہزار کی موت کی وجہ بن چکی ہے۔

حج کا معمول کے مطابق اہتمام غیر یقینی

کورونا وائرس کی وبا نے سعودی عرب کو بھی متاثر کیا ہے جہاں اب تک اس وائرس کے باعث لگنے والی بیماری کووِڈ انیس سے87 ہزار سے زائد افراد متاثر اور 525 ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس عالمی وبا کی وجہ سے اس سال حج کی معمول کے مطابق ادائیگی بھی مشکوک ہو چکی ہے۔

Saudi-Arabien Moslem-Pilger in Mekka
تصویر: Getty Images/AFP/K. Sahib

وسائل ہونے کی صورت میں زندگی میں ایک بار حج کرنا ہر مسلمان کے لیے لازمی ہوتا ہے اور یہ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے۔ مکہ میں حج کا اجتماع دنیا بھر میں انسانوں کے سب سے بڑے سالانہ اجتماعات میں سے ایک ہوتا ہے۔ رواں برس حج جولائی کے آخر میں کیا جانا ہے۔ لیکن ابھی تک ریاض میں سعودی حکومت نے یہ حتمی فیصلہ نہیں کیا کہ آیا اس سال بھی معمول کے مطابق دنیا بھر سے آنے والے کئی ملین مسلمانوں کے لیے حج کا اہتمام کیا جائے گا یا کورونا وائرس کی وجہ سے ایسا نہیں ہو گا۔

گزشتہ برس ڈھائی ملین مسلمانوں نے حج کیا

گزشتہ برس دنیا بھر سے سعودی عرب جا کر تقریباﹰ ڈھائی ملین مسلمانوں نے فریضہ حج ادا کیا تھا۔ انڈونیشی حکومت کے اس سال حج کے لیے ملکی شہریوں کو سعودی عرب جانے سے روک دینے کے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے مذہبی امور کے وزیر فخرالراضی نے جکارتہ میں کہا، ''یہ ایک بہت ہی مشکل اور تکلیف دہ فیصلہ تھا۔ لیکن ہم پر یہ فرض بھی عائد ہوتا ہے کہ ہم انڈونیشی حاجیوں اور حج ورکرز کی حفاظت کو بھی یقینی بنائیں۔‘‘

فخرالراضی نے صحافیوں کو بتایا، ''گزشتہ ماہ انڈونیشی صدر جوکو ویدودو نے ریاض حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ وہ اس سال حج کے انعقاد یا عدم انعقاد کے بارے میں اپنے فیصلے کا اعلان کرے۔ اس بارے میں صدر ویدودو نے سعودی عرب کے شاہ سلمان سے ٹیلی فون پر بات چیت بھی کی تھی۔‘‘

انڈونیشیا کا گزشتہ فیصلہ تبدیل

چند ماہ قبل جب کورونا وائرس کی عالمی وبا ابھی اتنی شدید نہیں ہوئی تھی، جکارتہ حکومت نے یہ بھی سوچا تھا کہ وہ اہنے ہاں سے عازمین حج کی ایک محدود تعداد کو سعودی عرب جانے کی اجازت دے دے گی۔ ایسا کورونا وائرس کے خطرے کو کم رکھنے کے لیے سوچا گیا تھا۔ اب لیکن فخرالراضی کے الفاظ میں، ''حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اس سال انڈونیشیا سے کوئی بھی حج کے لیے نہیں جائے گا۔‘‘

جکارتہ حکومت کے اس فیصلے کے طبی حوالے سے قابل فہم ہونے کے باوجود ان لاکھوں مسلمانوں کو اس سے مایوسی ہوئی ہے، جنہوں نے اس سال حج کرنے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔ عام طور پر اس کے لیے تیاریاں بہت پہلے ہی سے شروع کر دی جاتی ہیں۔

ایک 37 سالہ سرکاری اہلکار رِیا تورسناوتی نے روتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا، ''میری جملہ تیاریاں مکمل تھیں۔ میں نے حفاظتی ٹیکے بھی لگوا لیے تھے۔ میرا دل ٹوٹ گیا ہے۔ میری شدید خواہش تھی کہ اس سال حج کے لیے جاؤں۔ لیکن خدا کا فیصلہ کچھ اور ہے۔‘‘

م م / ع س (روئٹرز، اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں