1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا نے جرمن باشندوں کا کھانا پکانے کا پول کھول دیا

24 اپریل 2020

یہ واضح ہے کہ جرمن لوگ عموماً فاسٹ فوڈ اور تیار شدہ کھانوں پر تکیہ کرتے ہیں۔ اب کورونا لاک ڈاؤن میں ان کے کھانے پکانے کی محدود صلاحیتیں کھل کر سامنے آ گئیں ہیں۔

https://p.dw.com/p/3bMRe
USA, Umweltaktivist Rob Greenfield beim Kochen
تصویر: DW/G. Bencheghib

کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے دنوں میں مختلف اقوام کے لوگوں کو گھروں میں رہتے ہوئے اپنے روایتی کھانے پکانے کا موقع مل رہا ہے۔ اس طرح کوکنگ گھروں میں بند بے شمار لوگوں کو ایک فن اور شوق کے طور پر راحت و فرحت فراہم کر رہی ہے۔ کھانے کے شوقین افراد کو لاک ڈاؤن نے روزانہ کی بنیاد پر دوپہر اور شام کے لیے مختلف کھانوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر رکھا ہے۔

مختلف ممالک میں ذائقوں کی ایک انوکھی دنیا پائی جاتی ہے۔ اسی طرح یورپی اقوام میں بھی انواع و اقسام کی ڈِشز پائی جاتی ہیں۔ جرمن باشندوں کے دستر خوان پر ہر روز ایک نئی ڈِش پکا کر رکھنا اور اُسے کھانا، کورونا وائرس کی وبا کے دوران بہت ضروری ہو گیا ہے۔ وبا نے کثیر تعداد میں جرمن خواتین و حضرات کی کھانا پکانے کی صلاحیتوں کو ظاہر کر دیا ہے۔ اب جرمن لوگوں کی ایک بڑی تعداد سپر مارکیٹوں میں جا جا کر کھانوں کی تراکیب کی کتابیں تلاش کرتے پھر رہے ہیں تا کہ وہ بھولی بِسری ڈِشوں کی روایت کو دوبارہ سے زندہ کر سکیں۔

Bildergalerie Quarantäne Kochen
تصویر: picture-alliance/Bildagentur-online

جرمن ادارے فیڈریشن آف فُوڈ اینڈ ڈرنک انڈسٹریز (BVE) نے بھی اس امر کی تصدیق کی ہے کہ گھروں میں روزانہ کی بنیاد پر کھانا پکانے کے سلسے میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ بی وی اِی ادارے کے جنرل مینیجر کرسٹوف مِنحوف کا کہنا ہے کہ جرمن باشندوں کی کھانا پکانے کی صلاحیتیں گزشتہ کئی برسوں سے زوال پذیر ہیں اور اب ان مشکل حالات نے ان کی توجہ معمول کی زندگی کے اس انتہائی اہم پہلو کی جانب مبذول کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: میرکل نے اپنی خریداری خود کر کے عوام کو مثبت پیغام دیا ہے

مِنحوف مزید کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن میں باہر نکلنے کی کسی حد تک ممانعت ہے اور ریسٹورانٹس کی بندش نے جرمن لوگوں کو کچن یا باورچی خانوں کی جانب دوبارہ راغب کر دیا ہے۔ ان کے مطابق لوگ اب اپنے ذائقوں کی خاطر مختلف کھانے پکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سماجی ماہرین کا خیال ہے کہ لاک ڈاؤن نے جرمن عوام کو کچن کی دوبارہ راہ دکھا کر ایک اہم سماجی رویے کو پھر سے زندہ کر دیا ہے۔

Berlin Currywurst
تصویر: Getty Images/A.Berry

کرسٹوف مِنحوف کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا سے 'سوشل ڈسٹینسنگ‘ کی پابندی نے عام جرمن افراد کو قریبی دوکان سے فرنچ فرائز اور اطالوی پیزا لے کر کھانے سے محروم کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کے اب پیٹ بھرنے کے لیے جرمن عوام اپنے اپارٹمنٹ کے کچن میں چائے یا کافی بنانے کے ساتھ ساتھ تازہ کھانا پکانے پر بھی مجبور ہیں۔ مِنحوف کہتے ہیں سپر مارکیٹوں میں اکثر جرمن لوگ یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے لیے چکن، سبزی والا یا پھر بیف برگر کیسے بنا سکتے ہیں؟

یہ بھی پڑھیے: انڈوں اور آٹے کے ساتھ اقتدار کی جنگ، دو سو سال پرانی روایت

اس جرمن ادارے کے سربراہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے ابتدائی ایام میں سپر مارکیٹوں میں بنیادی ضروریات کی کئی اشیاء کی عدم دستیابی ہو گئی تھی کیونکہ آٹا، گھی، مصالحے اور ایسی دوسری چیزیں لوگوں نے فوراً خرید کر ذخیرہ کر لی تھیں۔ اس باعث بہت بڑی تعداد میں جرمن باشندے اپنے کچن میں کھانا پکانے کے لیے درکار ضروری سامان حاصل کرنے سے قاصر رہ گئے تھے۔ اس پریشانی کا سبب لوگوں کا تیار شدہ کھانے خرید کر کھانے کی عادت تھی۔

رواں مہینے کے اوائل میں دو جرمن جریدوں نے نیوز ایجنسی ڈی پی اے کوبتایا کے ان کے قارئین نے ان سے درخواست کی ہے کہ وہ کھانا پکانے کی تراکیب کے خصوصی صفحات شائع کریں۔ ان جریدوں کے مطابق یہ درخواست اس لیے کی گئی کیونکہ کھانا پکانے کی ترکیب کی کتابیں مارکیٹوں سے لوگوں نے خرید لی ہیں۔ اسی طرح آن لائن کھانا پکانے والی ویب سائٹوں کے صارفین میں بھی  بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔

ع ح / ع آ (جینیفر کامینو گونزالس)

برلن میں پاکستانی پکوان، ایک منفرد انداز میں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں