1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا: فیس ماسک اوردستانوں کو کیسے ٹھکانے لگایا جائے؟

جاوید اختر، نئی دہلی
6 اپریل 2020

 کورونا وائرس کو قابو میں رکھنے کے لیے بھارت میں ہزاروں افراد کو قرنطینہ کردیا گیا ہے لیکن ماہرین اس بات سے فکرمند ہیں کہ ان افراد کے زیر استعمال ماسک اور دستانے جیسے بائیو میڈیکل کچروں کو کس طرح ٹھکانے لگایا جائے۔

https://p.dw.com/p/3aWFN
Ebola im Kongo
تصویر: Getty Images/AFP/J. Wessels

ماہرین کے مطابق یہ بائیو میڈیکل کچرے اس لیے خطرناک ہیں کیوں کہ ان میں بھی وائرس موجود ہوسکتے ہیں اور ان سے بھی کورونا وبا کے پھیلنے کے خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

قومی دارالحکومت دہلی میں ہی بیس ہزار سے زائد گھروں کو قرنطینہ کردیا گیا ہے جبکہ تبلیغی جماعت کا معاملہ سامنے آنے کے بعد اس جماعت سے وابستہ پچیس ہزار افراد کو قرنطینہ میں رکھا گیا ہے اور پانچ گاوں کو پوری طرح سیل کردیا گیا ہے۔

بھارت میں آلودگی پر نگاہ رکھنے والے ادارے سینٹرل پالیوشن کنٹرول بورڈ(سی پی سی بی) نے کورونا وائرس کے مشتبہ متاثرین کو گھروں میں قرنطینہ کے دوران ان کے زیر استعمال فیس ماسک اور گلووز (دستانوں)کو 'گھریلو نقصان دہ کچرا‘  کی فہرست میں رکھا ہے اور ان کو ٹھکانے لگانے یا ٹریٹمنٹ کے لیے گائیڈ لائنس بھی جاری کیے ہیں۔  تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ ان بایو میڈیکل کچروں میں سے بیشتر کو خصوصی بایو میڈیکل ویسٹیج ٹریٹمنٹ پلانٹ میں پہنچانے کے بجائے ٹھوس کچروں کے ٹریٹمنٹ کے لیے بنائے گئے عام پلانٹوں میں پہنچادیا جارہا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

سی پی سی بی کے گائیڈ لائنس کے مطابق اس طرح کے کچروں کو جمع کرکے زرد رنگ کے مخصوص تھیلے میں رکھا جانا چاہیے۔ بلدیاتی اداروں کو ان تھیلوں کو یکجا کرنے کے لیے خصوصی تربیت یافتہ افراد کی خدمات حاصل کرنی چاہئیں، جو ذاتی حفاظتی سازوسامان سے لیس ہوں۔  اس کے علاوہ حکام کو ایسے تمام گھروں کی مانیٹرنگ کرنی چاہئے جہاں سے یہ بایو میڈیکل کچرے یکجا کئے جارہے ہوں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ ضابطے اپنی جگہ لیکن محکمہ صحت کی طرف سے بایو میڈیکل کچروں کو جمع کرنے کے تعلق سے کوئی ہدایت نامہ بھی اب تک جاری نہیں کیا گیا ہے۔ مختلف ریاستی حکومتیں اپنے اپنے طور پر اس سلسلے میں کام کررہی ہیں۔ بعض ریاستوں میں تو ابھی تک یہ کام شروع بھی نہیں ہوسکا ہے اور جن ریاستوں میں یہ شروع ہوا ہے ان میں کوئی یکسانیت نہیں ہے اور نہ ہی اسے منظم انداز میں انجام دیا جارہا ہے۔

China Müllverbrennung
بایومیڈیکل کچروں کو مخصوص پلانٹوں میں ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔تصویر: picture alliance/dpa/Dong Mu

 کچروں کو ٹھکانے لگانے یعنی ویسٹ مینجمنٹ سے وابستہ رضاکار تنظیم Toxics Link کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ستیش سنہا کہتے ہیں کہ انہیں نہیں لگتا کہ سی پی سی بی یا ریاستی پالیوشن کنٹرول بورڈ کی ہدایات کو زمینی سطح پر عملی طور پراور مناسب انداز میں نافذ کیا جائے گا۔  سنہا کا کہنا تھا،  ”یہ گائیڈ لائنس کاغذ پر دیکھنے میں تو بہت اچھے ہیں لیکن مجھے شبہ ہے کہ زمینی سطح پر شاید ہی عملاً کچھ ہورہا ہے۔ شہری بلدیاتی اداروں کی طرف سے ان کچروں کو جمع کرنے کے لیے خصوصی ٹیم بنانے کے بجائے، جس کے لیے اسے مخصوص تربیت دینے کی ضرورت ہوتی ہے، عام کچرے جمع کرنے والے مزدوروں سے ہی یہ کام کرایا جارہا ہے۔"

ستیش سنہا کہتے ہیں کہ اسپتالوں میں جمع ہونے والے بائیو میڈیکل کچروں کو ٹھکانے لگانے کا تو کسی حد تک انتظام ہے۔ لیکن گھروں میں جو بایو میڈیکل کچرے جمع ہورہے ہیں ان کو ٹھکانے لگانے کا کوئی مناسب انتظام نہیں کیا گیا ہے۔ حالانکہ گھروں میں جمع ہونے والے یہ بایو میڈیکل کچرے اسپتالوں کے کچروں سے مختلف نہیں ہیں۔ ان میں بھی اسی طرح کے وائرس ہوسکتے ہیں اور یہ لوگوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔"

خیال رہے کہ ڈاکٹر کورونا کے مشتبہ مریضوں کو کم از کم چودہ دنوں تک گھروں میں قرنطینہ کا مشورہ دیتے ہیں۔ ا س کی وجہ سے متاثرین کے زیر استعمال ماسک اور دستانوں کا بہت بڑا ذخیرہ جمع ہوتا جارہا ہے ۔لیکن ان بایو میڈیکل کچروں کو ٹھکانے لگانے کا کوئی مناسب نظم نہیں ہونے کی وجہ سے حفظان صحت سے وابستہ اہلکاروں کی پریشانیاں بڑھ گئی ہیں۔

 بھارت میں کووڈ۔انیس پر نگاہ رکھنے والے ایک غیر سرکاری ادارے کے مطابق 6 ا پریل کی شام تک کورونا وائرس سے متاثرین کی مصدقہ تعداد 4375 اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد 122 ہوگئی ہے جبکہ 329 افراد صحت یاب بھی ہوگئے ہیں۔

جاوید اختر، نئی دہلی

کورونا وائرس: دوا ساز کمپنیاں حل کی تلاش میں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید