کوئٹہ سول ہسپتال کے سامنے بم حملہ، پچاس سے زائد ہلاکتیں
8 اگست 2016کوئٹہ سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق بلوچستان کے صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے اس دھماکے کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ اس بم حملے میں مقامی وکلاء اور ان کے نمائندوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ پیر کی سہ پہر تک اس بم حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کم از کم بھی 53 ہو چکی تھی۔
نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے اسلام آباد سے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ اس ہلاکت خیز بم حملے کے بعد صوبائی دارالحکومت کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے جبکہ صوبائی وزیر صحت نے اپنے ایک بیان میں ہلاک شدگان کی تعداد 93 بتائی ہے۔ اس تعداد کی دیگر ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔
پولیس کے مطابق یہ بم دھماکا اس وقت کیا گیا جب سول ہسپتال کوئٹہ کے باہر بہت سے وکلاء جمع تھے، جن کے ایک سینئر ساتھی کو آج ہی قتل کر دیا گیا تھا۔ پاکستانی نجی ٹی وی اداروں کے مطابق اس دھماکے میں جو کم از کم 53 افراد ہلاک ہوئے، ان میں 25 کے قریب وکلاء بھی شامل ہیں۔
نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ اپنے تازہ ترین بیانات میں پولیس حکام نے بھی ہلاک شدگان کی تعداد 50 سے زائد بتائی ہے، جن میں سے نصف کے قریب وکلاء تھے جبکہ باقی ہلاک شدگان میں عام شہری اور پیرا میڈیکل سٹاف کے ارکان شامل ہیں۔
قبل ازیں جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے مقامی پولیس اہلکار زاہد شاہ کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ اس بم دھماکے میں ڈیڑھ درجن کے قریب ہلاکتیں ہوئیں۔ اس کے بعد ان ہلاکتوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا، جو پہلے 30، پھر 45 اور اس کے بعد 48 بتائی گئی۔ آخری خبریں آنے تک یہ تعداد صوبائی وزیر داخلہ نے 53 اور بلوچستان کے وزیر صحت نے 93 بتائی تھی جب کہ زخمیوں کی تعداد بھی درجنوں میں ہے۔
پولیس حکام کے مطابق یہ دھماکا اس وقت کیا گیا جب بہت سے وکلاء اپنے ایک سینئر ساتھی کی ہلاکت کے بعد سول ہسپتال کے باہر جمع تھے۔ اس وکیل رہنما کا نام بلال کاسی بتایا گیا ہے، جو بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر تھے، اور جنہیں آج ہی پیر کے روز ایک مسلح حملے میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
صوبائی حکومت کے ذرائع نے صحافیوں کو بتایا کہ بم دھماکے کا نشانہ بننے والے وکیل سول ہسپتال کے باہر اس لیے جمع تھے کہ بلال کاسی کی میت وصول کر سکیں۔
دیگر رپورٹوں کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں ایک نجی ٹیلی وژن چینل ’آج‘ کا ایک کیمرہ مین شہزاد بھی شامل ہے۔
اسلام آباد سے موصولہ دیگر نیوز ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے اس بم حملے کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ وکلاء اور صحافیوں کی حفاظت کے لیے سکیورٹی انتظامات فوری طور پر مزید بہتر بنائے جائیں۔ یہ رپورٹیں بھی ملی ہیں کہ اس بم دھماکے کے نتیجے میں دو مقامی صحافی ابھی تک لاپتہ ہیں۔
اس بم حملے کے بعد صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے اس واقعے کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے اس کی بھرپور مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ حکومت ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے خاندانوں کے غم میں برابر کی شریک ہے۔