1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کم عمری ميں شادی سے طبی مسائل

13 اپریل 2012

بلوچستان کے ايک ديہی علاقے سے تعلق رکھنے والا شادی شدہ جوڑا تلخ ذاتی تجربے سے گزرنے کے بعد کم عمری کی شادی اور اس کے نتیجے میں ہونے والے طبی مسائل سے متعلق معلومات عام کرنے کے ليے کوشاں ہے۔

https://p.dw.com/p/14dMv
تصویر: picture-alliance/dpa

پاکستان کے مغربی صوبہ بلوچستان کے ضلع خضدار کے پہاڑی علاقے ميں واقع کوہ دشت نامی ايک گاؤں کی رہائشی گل بانو کے والدين نے مقامی روايات کے مطابق محض پندرہ سال کی عمر ميں اس کی شادی کروا دی۔ اگلے ہی سال یعنی سولہ سال کی عمر ميں گل بانو نے تين دن تک جاری رہنے والے مراحل کے بعد ايک مردہ بچے کو جنم ديا۔ مگر يہ اس کی پريشانيوں کا آغاز ہی تھا۔ علاقے ميں طبی سہوليات کے فقدان کے باعث وضع حمل کے وقت پيچيدگیوں کے باوجود گل بانو کو صحت کی کوئی سہولت ميسر نہيں ہوئی۔ ناکام حمل کے ايک ہفتے بعد گل بانو کو احساس ہوا کہ ان کے جسم سے بول و براز کا بیک وقت اخراج ہو رہا تھا۔ یہ نہ صرف ایک تکلیف دہ صورتحال تھی بلکہ باعث شرمندگی بھی تھی۔ کسی کو نہیں معلوم تھا کہ بانو کو کیا ہوا ہے اور اس کا علاج کيسے ہوگا۔

دراصل تين دن تک جاری رہنے والے زچگی کے عمل اور اس صورتحال ميں طبی سہوليات کی عدم موجودگی کے باعث گل بانو کو فسچولا نامی تکلیف کی شکایت پیدا ہو گئی۔ فسچولا ايک پيچيدہ صورتحال ہے جس ميں بچہ دانی اور مقعد کی ناليوں ميں سوراخ ہو جاتا ہے اور یوں متاثرہ خاتون کو اپنے بول و براز پر کنٹرول نہيں رہتا۔

ايسی صورتحال سے قريب ايک سال تک دوچار رہنے کے بعد تب کہيں جا کر گل بانو کو طبی سہوليات دستیاب ہوئيں۔ علاج کے ليے اسے اس کا خاوند کراچی لے آيا جہاں کوہی گوٹھ ویمنز ہسپتال ميں اس کا علاج کيا گيا۔

واضح رہے کہ سن 2006 ميں اقوام متحدہ کے آبادی سے متعلق فنڈ کی جانب سے فسچولا کی روک تھام اور علاج کے ليے منصوبے کا آغاز کيا گيا تا کہ دنيا بھر ميں زچگی کے دوران شرح اموات ميں کمی لائی جاسکے۔

پاکستان ميں فسچولا کے بارے میں اعداد و شمار موجود نہيں ہيں البتہ ڈاکٹر شيرشاہ سيد جو کہ ملک کے نامور گائنی کالوجسٹ ہيں کے مطابق سالانہ قریب پانچ ہزار عورتيں اس مرض ميں مبتلا ہوتی ہيں۔ متاثرہ خواتين ميں سے صرف پانچ سو سے چھ سو کا علاج ہوتا ہے۔ اس حقيقت کے پيش نظر انٹرنيشنل يوتھ کونسل کے جائزوں ميں اس خدشے کا اظہار بھی کيا گيا ہے کہ پاکستان سن 2015 تک اقوام متحدہ کی جانب سے زچگی کی شرح اموات ميں کمی لانے کے لیے ہزارے کے ترقیاتی اہداف تک نہيں پہنچ سکے گا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے طے شدہ اس ہدف کے تحت پاکستان کو زچگی کے دوران ہونے والی اموات ميں ايک تہائی تک کمی لانا تھی۔ انٹرنيشنل يوتھ کونسل کے مطابق 2010ء ميں پاکستان ميں يہ شرح ہر ايک لاکھ ميں سے پانچ سو کے قريب تھی۔ البتہ ملک کے شہری علاقوں ميں زچگی کے دوران اموات کی شرح ديہی علاقوں کے مقابلے ميں کافی کم ہے جہاں تعليم کی کمی اور طبی سہوليات کی عدم موجودگی کے باعث يہ شرح کافی زیادہ ہے۔

2010ء ميں زچگی کے دوران اموات کی شرح ہر ايک لاکھ ميں سے پانچ سو تھی
2010ء ميں زچگی کے دوران اموات کی شرح ہر ايک لاکھ ميں سے پانچ سو تھیتصویر: AP

واضح رہے کہ 1929ء ميں متعارف کروائے گئے ايک قانون کے تحت پاکستان ميں سولہ سال سے کم عمر لڑکيوں کی شادی پر پابندی عائد ہے مگر تعليم کی کمی اور ديگر معاشرتی وجوہات کے باعث چند دور افتادہ علاقوں ميں ايسی روايات آج بھی موجود ہيں۔

صوبہ بلوچستان کے ضلع خضدار کے پہاڑی علاقے سے تعلق رکھنے والی گل بانو اب عوتوں کو اپنی کہانی سناتی ہے اور انہيں کم عمری ميں شادی سے متعلق مسائل اور ديگر معلومات سے آگاہ کرتی ہے۔

as/hk/Zofeen Ebrahim