کلنٹن آج اعلی سطحی وفد کے ساتھ پاکستان پہنچیں گی
20 اکتوبر 2011خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (AP) کے مطابق ہلیری کلنٹن کے ہمراہ آنے والوں میں خفیہ ادارے سی آئی اے کے سربراہ ڈیوڈ پیٹریاس کے علاوہ امریکی فوج کے صدر دفتر پینٹاگون کے دیگر اعلی حکام بھی ہوں گے۔ واشنگٹن میں سفارتی ذرائع کے توسط سے نیوز ایجنسی اے پی (AP) کا کہنا ہے کہ اس دورے کے دوران ہلیری کلنٹن پاکستان پر دباؤ ڈالیں گی کہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرے اور انتہاپسندوں کی افغانستان میں دراندازی کو روکنے کے لیے موثر اقدامات اٹھائے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ، عسکری اور سفارتی حلقے کے سینئر افراد کی آمد کا مقصد پاکستان کے ساتھ امریکی تعاون اور دباؤ دونوں کو ظاہر کرتا ہے۔ ذرائع کے مطابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی ، پاکستان اور افغانستان کے لیے خصوصی امریکی مندوب مارک گروسمین اور قومی سلامتی کے ادارے کے ڈاگ لوٹے (Doug Lute) بھی آج ہلیری کلنٹن کی پاکستانی حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں شریک ہوں گے۔
سلامتی کی صورتحال کی وجہ سے ابھی تک ان ملاقاتوں کو خفیہ رکھا گیا ہے۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ اس دوران حقانی گروپ کے خلاف پاکستان کی جانب سے کارروائی کے حوالے سے امریکی تحفظات کو مرکزی حیثیت حاصل رہے گی۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ تیس سال سے زائد کے عرصے سے حقانی گروپ کا مرکز پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیررستان کا صدر مقام میران شاہ ہے۔ اس دوران مختلف ڈرون حملوں میں امریکہ حقانی نیٹ ورک کے دو اہم لیڈروں کو ہلاک کرنے میں بھی کامیاب بھی رہا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کلنٹن اس وقت افغانستان میں ہیں۔ آج وہ افغان صدر حامد کرزئی سمیت کابینہ کے دیگر ارکان سے ملاقاتیں کرنے والی ہیں۔ گزشتہ شب کابل پہنچنے پر انہوں نےکہا تھا کہ افغانستان میں استحکام کے لیے ضروری ہے کہ طالبان کے ساتھ مصالحت کی کوششوں کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔ حامد کرزئی نے گزشتہ دنوں کے دوران طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے مایوسی کا اظہار کیا تھا۔ اس حوالے سے کلنٹن نے افغان حکام کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ اس عمل کو رکنا نہیں چاہیے۔ افغان حکام سے بات چیت میں امن مذاکرات کے علاوہ حقانی نیٹ ورک کا موضوع بھی زیر بحث آئے گا۔ امریکہ اور افغانستان کا موقف ہے کہ حقانی نیٹ ورک پاکستان سے بیٹھ کر افغانستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہے۔
طالبان کے ساتھ امن بات چیت کے حوالے سے افغان صدر کی مایوسی، حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی اور پاکستان اور امریکہ کے مابین جاری تناؤ کے تناظر میں ہلیری کلنٹن کے اس دورے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
رپورٹ : عدنان اسحاق
ادارت : عابد حسین