1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتبھارت

کشمیری تاجروں کا پاکستان کےساتھ تجارتی راستے کھولنےکا مطالبہ

17 اپریل 2022

بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کےدرمیان لائن آف کنٹرول کےاطراف تین سال سے تجارت رکی ہوئی ہے۔ اس کےاثرات دور دراز علاقوں کے ہزاروں دیہاتیوں پر بھی پڑے، ان کا اب مطالبہ ہے کہ سرحد پارتجارتی راستہ دوبارہ کھولا جائے۔

https://p.dw.com/p/4A0bt
Pakistan | Indien | LKW | grenzüberschreitender Handel in Kaschmir
تصویر: Nasiruddin Mughal/epa/dpa/picture alliance

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے تاجر نئی دہلی حکام سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ تجارتی راستے کھول دیے جائیں کیونکہ اشیائے خورد و نوش کے ساتھ ساتھ دیگر اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔

2008 ء میں بھارت اور پاکستان نے لائن آف کنٹرول یا ایل او سی کے آر پار تجارت کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اس اقدام کو نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان اعتماد سازی کے اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ تاہم 2019 ء میں نئی دہلی نے سرحد پار تجارت روک دی، جسے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کو ختم کرنے کی تیاری کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ نئی دہلی نے اپنے اس اقدام کا جواز یوں پیش کیا تھا کہ دہشت گرد گروپوں سے تعلق رکھنے والے افراد اس راستے کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔

بھارت نے پاکستان کے ساتھ سرحد پار تجارت معطل کر دی

تجارتی راستہ بحال کرنے کا مطالبہ اب کیوں؟

اسلامی مہینے رمضان کے دوران بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقوں میں زیادہ تر شہری پھلوں اور چند مخصوص اشیاء کا استعمال زیادہ کرتے ہیں۔ تجارتی بندش کی وجہ سے عام اشیاء کی قیمتیں بھی بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ کشمیر میں لائن آف  کنٹرول تاجروں کی تنظیم کے چیئرمین ہلال ترکی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پابندی کے بعد اشیاء کی قیمتوں میں 200 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا، ''انگور، نارنجی، کھجور، مسواک یا ایسے مصالحے وغیرہ جن کی تجارت ایل او سی کے ذریعے کی جاتی ہے، ان کی قیمتیں عام خریداروں کی قوت خرید سے باہر ہیں۔‘‘

Kashmir Händler
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پاکستانی ملبوسات بہت پسند کی جاتے ہیںتصویر: DW/A. Ansari

دیہی برادریوں پر شدید اثرات

کشمیر میں جب تک سرحد پار تجارت فعال تھی تب تک 21 اشیاء کی تجارت کی اجازت تھی، جن میں مختلف اقسام کے پھل، سبزیاں  اور دستکاری مصنوعات بھی شامل تھیں اور یہ ڈیوٹی فری تھیں اور یہ  تجارت بارٹر سسٹم کے تحت چل رہی تھی۔ اس میں کرنسی کا تبادلہ شامل نہیں تھا۔ تجارتی راستے نے ایک سرحدی معیشت بنائی، جس سے دور دراز علاقوں میں رہنے والے ہزاروں افراد  کو روٹی روزی میسر ہوئی۔ اُڑی اور چکن دا باغ جیسے علاقے کاروباری مراکز میں تبدیل ہو گئے اور شمالی بھارت کے تمام علاقوں سے  ہزاروں تاجر سستے داموں اشیاء کی خریداری کے لیے یہاں جمع ہوتے تھے۔ نئی دکانیں، گودام اور ریستوراں اور مقامی نوجوانوں کو بطور مینیجر، ڈرائیور یا یومیہ اجرت پانے والے کارکنوں میں شامل کیا گیا۔ یہاں تک کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے کاٹن کی اشیاء وغیرہ بھارتی سرحدی حصے میں سستے داموں بیچی جاتی تھیں۔ پاکستان کے روایتی لباس اور جوتے بھی بھارت میں بہت مقبول ہوئے۔ بہت سے بوتیک کھل گئے جہاں پاکستانی فیشن ویئر دستیاب ہوا۔ ایل او سی کے رستے دس سال کے دوران ہونے والی تجارت کا تخمینہ 1.2 بلین ڈالر لگایا گیا تھا۔

بھارتی تاجروں کی پریشانی

جیسے جیسے تجارت ترقی کرتی گئی، چند  تنازعے بھی سامنے آنے لگے۔ مثال کے طور پر بھارت کے ٹیکس دہندہ تاجروں نے یہ شکایت شروع کر دی کہ کشمیر کے راستے بھارت میں داخل ہونے والی سستی اور ٹیکس فری اشیاء مسابقت کو بگاڑ رہی ہیں۔ مزید برآں پاکستان سے آنے والے ٹرکوں پر مبینہ منشیات، ہتھیار اور جعلی کرنسی کی اطلاعات ملنے پر بھی نئی دہلی حکام کو تشویش لاحق ہوئی کہ اس تجارت کو  بھارت مخالف عسکریت پسندی کے مبینہ فروغ کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔ آخر کار 2019 ء میں نئی دہلی نے سرحد پار تجارت کو غیر معینہ مدت کے لیے معطل کر دیا تھا۔

سمان لطیف (ک م / م م)