1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمے کی برسی پر سخت ترین کرفیو

صلاح الدین زین سرینگر، کشمیر
4 اگست 2020

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں چار اور پانچ اگست کے دوران سخت کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ برس پانچ اگست کو ہی کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/3gN3n
Indien Kaschmir-Konflikt
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں چار اور پانچ اگست کو سخت ترین کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ پیر دو اگست کی شام کو سرینگر کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے اپنے ایک حکنامے میں کرفیو کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ چار اور پانچ اگست کو مکمل طور پر کرفیو نافذ رہے گا اور اس کا اطلاق فوری طور پر ہوگا۔

وادی کشمیر کے دیگر اضلاع کی انتظامیہ نے بھی کرفیو کے نفاذ کے سلسلے میں اسی طرح کا نوٹس جاری کیا ہے اور اس طرح وادی کشمیر کے تمام دس اضلاع میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔

حکام نے اپنے حکمنامے میں کرفیو نافذ کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا ہے کہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی دفعہ 370 کے خاتمے اور اس کا ریاستی درجہ ختم کرنے کی برسی کے موقع پر پانچ اگست کو بڑے پیمانے پر پرتشدد مظاہروں کا خدشہ ہے اس لیے کرفیو نافذ کیا جا رہا ہے۔

سینیئر پولیس حکام کا کہنا ہے کہ علیحدگی پسند تنظیمیں اور بعض پاکستانی حمایت یافتہ گروپ پانچ اگست کو بھارتی حکومت کے اقدامات کی مخالفت میں یوم سیاہ منانا چاہتے جس سے تشدد بھڑکنے کا خدشہ ہے اور جان و مال کے تحفظ کے لیے کرفیو نافذ کیا جا رہا ہے۔

کرفیو کی وجہ سے کشمیر میں ہر جانب خوفناک سناٹے کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ سڑکوں پر جگہ جگہ خاردار تاروں کی روکاوٹیں کھڑی کردی گئی  ہیں۔ ہر حانب فوج اور نیم فوجی دستوں کا پہرہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پوراخطہ بندوق اور بوٹوں کے سائے میں گھٹن کا شکار ہے۔ صرف وقفے وقفے سے جنگی طیاروں کی گھن گرج سنی جا سکتی ہے جن میں سے بیشترکا رخ لداخ کی جانب ہے۔ 

      

کشمیر: بشیر احمد خان کو کس نے مارا؟

نریندر مودی کی حکومت نے گزشتہ برس پانچ اگست کو جموں و کشمیر کو خصوصی اختیارت دینے والی آئینی دفعہ 370  کو منسوخ کر دیا تھا اور اس کا ریاستی درجہ ختم کرتے ہوئے اسے مرکز کے زیر انتظام دوعلاقوں، جموں و کشمیر اور لداخ، میں تقسیم کر دیا تھا۔ حکومت نے اپنے اس اقدام کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے لیے تمام مقامی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا تھا، فون، انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی نظام پر پابندی عائد کرتے ہوئے پورے خطے میں سخت ترین کرفیو نافذ کر دیا تھا۔

 کرفیو جیسی ہی یہ تمام بندشیں تقریبا ًآٹھ ماہ تک جاری رہیں۔ بعض کشمیری رہنماؤں کو اب رہا کر دیا گیا تاہم سینکڑوں اب بھی کشمیر اور کشمیر کے باہرجیلوں میں بندہیں۔ آٹھ ماہ کی سخت بندشوں کے بعد جب حکومت نے ان میں نرمی کا اعلان کیا تو کورونا کی وبا کشمیر تک پہنچ چکی تھی جس کی وجہ سے خطہ اب تک لاک ڈاؤن کا شکار ہے اور اس طرح کشمیر گزشتہ ایک برس سے کرفیو جیسی بندشوں، قدغنوں اور لاک ڈاؤن کی زد میں ہے۔

گزشتہ ایک برس سے اسکول اورکالجز بند ہیں، کاروبار، سیاحت اور دیگر تمام  شعبے ٹھپ پڑے ہیں جس کی وجہ سے کشمیر کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور عام لوگ بہت پریشان ہیں۔

انسانی حقوق کے معروف کارکن پرویز امروز کہتے ہیں کہ بھارتی حکومت نے گزشتہ برس جو اقدامات کیے اس سے کشمیریوں کو زبردست صدمہ پہنچا۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ''وہ اب بھی صدمے سے باہر نہیں آئے ہیں۔ میرے خیال سے گزشتہ برس کشمیریوں کو جو چوٹ پہنچی ہے، سن 1947 کے بعد سے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ لوگ کافی مایوس ہیں، وہ خوف زدہ ہیں اور سمجھ نہیں پا رہے کہ اس کا رد عمل کیسے ظاہر کیسے کریں۔''

پرویز امروز کہتے ہیں کہ بھارتی حکومت کشمیریوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کووڈ 19 کا بھی خوب استعمال کر رہی ہے۔ بھارت نواز سیاسی جماعت کے ایک رہنما وحید پرا بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کورونا کی وبا کے تعلق سے ملک کے دیگر حصوں میں زیادہ سنگین صورت حال ہے لیکن سب سے زیادہ سختی کشمیر میں برتی جا رہی ہے۔ ''اس طرح کے سلیکٹیو لاک داؤن کا مطلب کشمیری عوام کو کنٹرول کرنا ہے۔''

 انسانی حقوق کے ایک دیگر کارکن خرم پرویز کا کہنا ہے کہ کشمیر میں بھارتی حکومت کی ترجیح عدل و انصاف نہیں بلکہ کنٹرول ہے۔ ''کشمیر میں روزمرہ کی زندگی پر قابو کیسے پایا جائے یہ اس کی اولین ترجیح ہے۔ اس کنٹرول کے لیے انصاف بھاڑ میں جائے حکومت اس کی پرواہ نہیں کرتی ہے۔''

چار اور پانچ اگست کو جہاں وادی کشمیر میں سخت کرفیو نافذ ہے ایودھیا میں پانچ اگست کی صبح رام مندر کی تعمیر کی سنگ بنیاد کے لیے بڑے زور و شور سے تیاری چل رہی ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران وہاں ایک پر شکوہ تقریب کا انعقاد ہورہا ہے جس میں بھارتی وزیر اعظم مودی مہمان خصوصی ہیں جس میں دیگر سینکڑوں افراد شریک ہوں گے۔ یہ سب ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب وزیر داخلہ امیت شاہ کووڈ 19 کی وجہ سے اسپتال میں ہیں اور مودی کابینہ کے تقریبا نصف وزارء کورونا کے اندیشے کے سبب سیلف آئسولیشن میں ہیں۔

’عمران خان کو بھارتی مسلمانوں کی قیادت کرنے کی اجازت نہیں‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں