1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر: بیس روزہ تعطل کے بعد پاک بھارت تجارت بھی بحال

29 جنوری 2013

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر میں کنٹرول لائن کے قریب حالیہ خونریز جھڑپوں کے باعث معطل ہو جانے والی دو طرفہ تجارت 20 روزہ وقفے کے بعد آج منگل کو ایک بار پھر بحال ہو گئی۔

https://p.dw.com/p/17Tnv
تصویر: dapd

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد سے ملنے والی رپورٹوں میں خبر ایجنسی اے ایف پی نے بتایا ہے کہ منگل 29 جنوری کے روز چھ پاکستانی ٹرک مختلف تجارتی اشیاء لے کر بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں داخل ہو گئے۔

ایک سرکاری اہلکار نے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کی بحالی کے بعد مظفر آباد میں صحافیوں کو بتایا کہ چھ مال بردار ٹرکوں کے جس پاکستانی قافلے نے آج کنٹرول لائن عبور کی، اس کے ذریعے تجارتی سامان کے طور پر پیاز، کھجوریں اور خشک میوہ جات بھارت بھیجے گئے ہیں۔

ہمالیہ کے پہاڑی علاقے کے اس متنازعہ اور منقسم خطے میں دوطرفہ تجارت کی یہ بحالی مقامی وقت کے مطابق منگل کی دوپہر سے کچھ دیر قبل عمل میں آئی۔ پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے کنٹروکل لائن کے آر پار تجارت کرنے والے تاجروں کے مطابق اس مہینے کے اوائل میں پاکستانی اور بھارتی دستوں کے درمیان جھڑپوں میں اطراف کے کم از کم پانچ فوجیوں کی ہلاکت کے بعد باہمی تجارت قریب تین ہفتے تک بند رہنے کے باعث انہیں جو نقصان ہوا، اس کی مالیت 30 ملین روپے یا تین لاکھ ڈالر کے برابر بنتی ہے۔

Indien Pakistan Grenzkonflikt indische Grenzpatrouille an der Grenze
کنٹرول لائن کے قریب بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں سچیت گڑھ کے مقام پر قائم بھارتی سکیورٹی چوکیوں کی رات کے وقت لی گئی ایک تصویرتصویر: Reuters

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں ٹریڈ اینڈ ٹریول اتھارٹی (TATA) کے ڈائریکٹر جنرل بریگیڈیئر اسماعیل خان نے خبر ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ جو چھ پاکستانی مال بردار ٹرک آج بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں داخل ہوئے، انہوں نے کنٹرول لائن کو تیتری نوٹ کی سرحدی گزرگاہ کے راستے عبور کیا۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مقامی تاجروں کی تنظیم کے سربراہ کاشان مسعود کے بقول فوجی کشیدگی کے باعث کراسنگ پوائنٹ بند رہنے کے نتیجے میں کنٹرول لائن کے راستے دو طرفہ تجارت میں حالیہ تعطل کئی مقامی تاجروں کے لیے شدید نقصانات کا سبب بنا۔ انہوں نے کہا، ’ہم نے بھارت سے ٹماٹر اور کئی دیگر سبزیوں کی درآمد کے آرڈر دے رکھے تھے، جو کراسنگ پوائنٹ کے قریب ہی گل سڑ گئیں اور ہمیں مجموعی طور پر قریب 30 ملین روپے کا نقصان ہوا۔

کاشان مسعود کے مطابق کنٹرول لائن کے آر پار تجارت کرنے والے تاجروں کو یہ خطرہ ہمیشہ رہتا ہے کہ کسی بھی وقت کنٹرول لائن پر کشیدگی کی وجہ سے انہیں کاروباری نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’ہم یہ تجارت یہ خطرات اپنے طور پر مول لے کر کر رہے ہیں۔ ہمیں حکام کی طرف سے کوئی ضمانت نہیں دی جاتی‘۔

کشمیر میں کنٹرول لائن کے قریب پاکستانی اور بھارتی دستوں کے درمیان تازہ جھڑپیں چھ جنوری کو شروع ہوئی تھیں، جن میں اطراف کے پانچ فوجی مارے گئے تھے۔ خطرہ تھا کہ یہ فوجی کشیدگی پھیل بھی سکتی ہے تاہم 16 جنوری کو اطراف کے اعلیٰ ملٹری کمانڈروں کے مابین ٹیلی فون پر گفتگو کے نتیجے میں ایک فائر بندی معاہدہ طے پا گیا تھا، جس کا فریقین اب تک احترام کر رہے ہیں۔

اسی کشیدگی کے باعث کشمیر میں پاکستان اور بھارت کے درمیان 2005ء میں شروع ہونے والی بس سروس بھی معطل ہو گئی تھی۔ یہ بس پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں راولا کوٹ اور بھارت کے زیر انتظام حصے میں پونچھ کے درمیان چلتی ہے۔ یہ بس سروس بھی کل پیر 28 جنوری کو بحال ہو گئی تھی۔ اس بس سروس کا مقصد علاقے کے منقسم خاندانوں کے ارکان کو ایک دوسرے سے ملنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔

mm / ai (AFP)