کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے، حل کے لئے کوششیں جاری
10 دسمبر 2010نئی دہلی میں کشمیر کی صورتحال پر غور و خوص کے بعد وزیر داخلہ پی چیدمبرم سے منسوب ایک بیان کو جاری کیا گیا۔ ان کے بقول نئی قانون سازی سے متعلق کوششوں میں نمایاں پیشرفت ہورہی ہے۔ 1989ء میں مسلح بغاوت کے آغاز کے بعد اب رواں سال وادی میں ایک مرتبہ پھر شورش برپا ہے۔ حکومت مخالف احتجاجی مظاہروں کے نئے سلسلے میں ایک سو سے زائد کشمیری مارے جاچکے ہیں۔
جون کی 11 تاریخ کو گرمائی دارالحکومت سری نگر میں ایک نوجوان لڑکے کی پولیس فائرنگ سے ہلاکت کے بعد یہ پرتشدد واقعات پھوٹ پڑے تھے۔ مارے جانے والے بیشتر کشمیری نوجوان ہیں اور تقریبا تمام ہلاکتوں کی ذمہ داری سکیورٹی فورسز پر عائد کی جاتی ہے۔ کشمیری سیاسی قیادت کے مطالبات میں وسیع تر خودمختاری سمیت بھارت سے علیحدگی کا نعرہ بھی شامل ہے۔
بھارت کی مرکزی حکومت کی جانب سے تنازعے کے سیاسی حل کی مسلسل یقین دہانیوں کے بعد وزیر داخلہ کا تازہ بیان سامنے آیا ہے۔ اعتدال پسند تصور کی جانے والی کشمیری قیادت اور نئی دہلی حکومت کے درمیان ستمبر میں بات چیت کے متعدد ادوار کے بعد بھارت نے اعتماد سازی کے 8 نکات کا اعلان کیا تھا۔ ان کے مطابق وادی میں سکیورٹی فورس کی تعداد کم کی گئی، مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق کشمیری شخصیات سے رابطے کئے گئے، ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ کو زر تلافی فراہم کیا گیا اور فورسز سے ان کے چند متنازعہ اختیارات واپس لے لئے گئے۔
سیاسی مبصرین ایسے خدشات ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر نئی دہلی حکومت کشمیر کے معاملے کا سیاسی حل تلاش کرنے میں ناکام رہی تو وادی ایک مرتبہ پھر بدامنی کا شکار ہوجائے گی۔ علیحدگی پسند کشمیری قائدین کے اتحاد کے اہم رکن، میرواعظ عمر فاروق کا کہنا ہے کہ انہیں کسی سیاسی پیشرفت کے حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ ’’ دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ کیا حل لے کر آتے ہیں، تاہم مستقل حل کے لئے مقبول ترین عوامی خواہش کو مد نظر رکھنا ہوگا یعنی آزادی‘‘۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے نمائندے سے گفتگو میں میر واعظ نے یہ بھی واضح کیا کہ چونکہ پاکستان اس تنازعے کا فریق ہے لہذا اسے بھی معاملے میں شریک کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت مخالف عسکری تنظیم حزب المجاہدین نے نئی دہلی حکومت پر بے اعتباری ظاہر کرتے ہوئے مسلح جدوجہد جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
پاکستانی شہر راولپنڈی میں روئٹرز کے نمائندے سے گفتگو کے دوران حزب کے کمانڈر سید صلاح الدین نے کہا، ’’ اگر ہم نے دیکھا کہ بھارت کشمیر کے مستقل حل کے لئے سنجیدگی اور خلوص کا مظاہرہ کر رہا ہے تو ہم اپنی بندوقیں خود خاموش کردیں گے، فی الحال ہمیں بھارت پر کوئی اعتبار نہیں، ہمیں بار ہا دھوکہ دیا جاچکا ہے‘‘۔
برطانوی تھنک ٹینک چیٹم ہاؤس کے ایک جائزے کے مطابق وادی کشمیر کی لگ بھگ 95 فیصد آبادی بھارت اور پاکستان دونوں سے خودمختاری کے حق میں ہے۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : عابد حسین