1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر اور دہلی کے جشن آزادی میں فرق

صلاح الدین زین
18 اگست 2020

ہر برس پندرہ اگست کی صبح بلکہ یوں کہیں کہ رات کے وقت سے ہی آزادی کی مبارک باد پر مبنی پیغامات موصول ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ میں حیران تھا کہ مجھے کوئی ایک پیغام بھی وصول نہیں ہوا۔

https://p.dw.com/p/3h8uP
تصویر: privat

کئی بار اپنا فون دیکھا اور پھر لگا کہ ہفتے کا دن ہے شاید اس لیے لوگ دیر تک آرام کر رہے ہوں گےاور یہ سوچ کر میں نے خود ہی بعض حضرات کو پیغامات لکھے لیکن جب وہ بھی ڈیلیور نہ ہوئے توتشویش میں اضافہ ہوا۔ فون چیک کیا کہ شاید میرا موبائل ڈیٹا بند ہو لیکن وہ بھی آن تھا۔

اسی الجھن میں جب میں نے لوگوں سے دریافت کیا تو بتایا گيا کہ آج تو پندرہ اگست ہے، آج انٹرنیٹ سروس کیسے دستیاب ہو گی؟ اسے تو نصف شب کے دوران ہی بند کر دیا گیا تھا۔ تومسئلہ یہ ہے کہ میں بھارتی زیر انتظام کشمیر میں تھا اور یوں کہہ لیں کہ غلطی میری تھی۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پاکستان اور بھارت کے یوم آزادی یعنی 14 اور 15 اگست سےمتعلق برسوں سے طرح طرح کی خبریں پڑھتے اور سنتے آئے تھے کہ اس روز کس بڑے پیمانے پرکشمیر میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے جاتے ہیں یا پھر چودہ اگست کے روز وادی کشمیرمیں سخت ترین سکیورٹی کے باوجود کچھ لوگ پاکستان کا پرچم لہرانے کی کوشش کرتے ہیں اور15 تاریخ کو وادی کشمیر کے لوگ بھارت کی آزادی کا جشن منانے کے بجائے اپنی اسیری کا سوگ مناتے ہیں۔

لیکن اس مرتبہ پہلی بار مجھے میڈیا کی زبانی نہیں بلکہ یوم آزادی کے موقع پر خود کشمیر کامشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔

دوپہر کے بعد مجھے سفر پر روانہ ہونا تھا لیکن چونکہ کشمیر میں جشن آزادی کو مجھے قریب سے دیکھنا تھا، اس لیے میں نے وقت سے پہلے ہی رخت سفر باندھا اور نکل پڑا۔ مرکزی کشمیرسے چلا تو راستے میں ہر جانب سائیں سائیں کرتے ہوئے سناٹوں نے ہمارا استقبال کیا۔ سڑکیں،گلیاں، محلے اور بازار سنسان پڑے تھے۔ راستوں پر جگہ جگہ روکاوٹیں تھیں اور ہر جانب نیم فوجی دستوں کا پہرہ تھا۔ خاموش تنگ گلیاں آوارہ کتوں کی چہل پہل سے آباد ملیں۔ سیب کے باغوں اوراخروٹ کے درختوں کے درمیان سے نکلنے والی تنگ سڑکیں خوف ناک سناٹے میں ملبوس تھیں۔ فلائی اورز کے ہر جانب سخت سکیورٹی تھی، شاہراہوں پر تپتی دھوپ، خاردار تاروں اور بوٹوں کا قبضہ تھا۔

دریائے جہلم کا پانی حسب معمول کسی کی پرواہ کیے بغیر اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔ چنار کے پتے جہاں تپتی دھوپ میں دل کو راحت پہنچا رہے تھے تو گدریلے پھل اور لہلہاتے دھانکے کھیت آب باراں کے لیے ترس رہے تھے۔ کشمیر کے اس عجیب موسم پر مجھے حیرانی تھی اورمیرے استفسار پر کشمیری ساتھیوں نے بتایا کہ خطے کو عشروں بعد اس طرح کے موسم کا سامناہے۔ سرینگر سمیت مختلف علاقوں سے گزرتا ہوا 45 کلومیٹر کے سفر کے بعد جب ایئر پورٹ کے پاسپہنچے تو ایک کلومیٹر پہلے ہی مجھے اور سامان کو سکیورٹی چیک سے گزرنا پڑا۔

مجھے یہ تشویش لاحق تھی کہ انٹرنیٹ ہے نہیں اور میرا ٹکٹ تو میری میل میں ہے اور اب کیا ہوگا؟ پھر خیال آیا کہ ایئر پورٹ پر شاید یہ سہولت دستیاب ہو جائے۔ لیکن میرا اندازہ غلط نکلا اورایئر پورٹ پر بھی عوام کے لیے انٹرنیٹ نہیں تھا۔ ایس ایم ایس سے اپنی ٹکٹ کی تفصیل بتا کر میںنے کسی طرح بورڈنگ پاس تو حاصل کر لیا تاہم اب مسئلہ تھا ایک حکومتی ایپ کا جو کورونا وبا کے دوران سفر کے لیے لازمی ہے۔ چونکہ وہ ایپ ڈاؤن لوڈ نہ ہو سکی، اس کے لیے ایک خصوصی فارم بھرنا پڑا۔

دوران پرواز کشمیر کے خوبصورت پہاڑوں کا نظارہ لینے کے بجائے میں اس فکر میں گم سم تھا کہ کشمیر میں قیام کے دوران کئی بار کرفیو جیسا سماں تو دیکھا تھا لیکن آج جبکہ بھارت آزادی کاجشن منا رہا ہے کشمیر کی اس خاموشی میں بے چینی، افسردگی، مایوسی اور جھنجلاہٹ پوری طرح عیاں تھی۔

انہی خیالوں میں ڈوبا تھا کہ طیارہ دہلی کے ایئر پورٹ پر لینڈ کر گيا اور جیسے ہی موبائل فون آن کیا، جشن آزادی کی مبارک کے لیے پیغامات کا سیلاب سا امڈ پڑا۔ واٹس ایپ پر آنے والے وہ تمام میسیجز ، جو کشمیر میں گزشتہ تقریبا 20 گھنٹوں سے قید تنہائی سے باہر آنے کے لیے بے تاب تھے، طوفان کی طرح وارد ہوئے۔

جشن آزادی کے موقع پر بہت سے پیغامات میں سے کچھ ایسے بھی تھے، جن میں جنگ آزادی میںمسلمانوں کی قربانیوں کو یاد کیا گيا تھا۔ بعض نے اُن مجاہدین آزادی کی تصویریں شائع کیتھیں، جنہوں نے سب سے پہلے ملک کے لیے جان کی بازی لگائی تھی۔ بعض نے اس تحریک میںمسلم خواتین کے کردار کو اجاگر کیا تھا اور تصاویر کے ساتھ یہ تفصیلات شیئر کی گئی تھیں کہکس طرح مسلم خواتین نے تحریک آزادی میں صف اوّل میں کھڑے ہو کر مردوں کے شانہ بشانہبرطانوی راج سے ٹکر لی تھی۔ حب الوطنی سے سرشار گيت اور نغمے بھی خوب شیئر کیے جا رہےتھے۔

کشمیر سے باہر رہنے والے میرے بعض کشمیری دوستوں نے بھی آزادی کی مبارک باد پیش کی تھی۔ ان کے بعض دلچسپ پیغامات میں سکیورٹی فورسز اور خاردار تاروں کی تصاویر کے ساتھ"آزادی مبارک” لکھا تھا۔ بعض نے لکھا تھا، "جو آزاد ہیں انہیں آزادی مبارک ہو۔" میرے لیے یہ لمحہ فکریہ تھا کہ یہ طنز ہے، یا پھر ہماری آزادی کا مذاق؟ یا پھر وہ یہ کہنے میں سنجیدہ تھے کہ جو آزاد ہیں، انہیں آزادی مبارک ہو۔

انہیں خیالوں میں جیسے جیسے میں ایئر پورٹ سے شہر کی جانب بڑھتا گيا مجھے جشن آزادی کی رونق نظر آنے لگی۔ دہلی پر گہرے بادلوں کا سایہ تھا اور بلا کی گرمی میں بھی نوجوان پتنگبازی میں مصروف تھے۔ کورونا کی وبا کے باوجود لوگ چھٹی کے موڈ میں خوش و خرم نظر آئے۔ شام ہوتے ہوتے سرکاری عمارتیں روشنیوں سے جگمگا اٹھیں اور تاریکی میں بھی جشن آزادی کانور روشن ہوا۔

اب تک میں یہ خبریں بھی پڑھ چکا تھا کہ کشمیر میں یوم آزادی کے موقع پر مظاہروں کے خوف کے سبب حکومت نے سخت بندشیں عائد کی تھیں۔ اس موقع پر جو صورتحال میں نے دیکھی تھی، اسےوزیر اعظم نریندر مودی نے لال قلعے سے اپنے خطاب میں یوں بیان کیا تھا کہ "کشمیر کو دفعہ 370 سے آزادی ملے ہوئے ایک برس مکمل ہو گيا۔"

کشمیر کے گورنر نے بھی جشن آزادی کے موقع پر فوج کے حصار میں کھڑے ہو کر اپنے بعض دفتری عملے کے چند ساتھیوں کے ساتھ بھارتی پرچم کشائی کی اور جو بات مودی نے کہی تھی تقریبا اسی کو دہرا دیا۔ میں اس بات پر حیران تھا کہ چودہ اگست کو بھی بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بندشیں عائد تھیں لیکن اس کے باوجود متعدد علاقوں میں پاکستانی پرچم کے لہرانےکی خبریں آئی تھیں تاہم پندرہ اگست کا سناٹا تو بے مثال تھا۔