کشمير ميں مظاہرے جاری : مزيد پانچ افراد ہلاک
15 ستمبر 2010آج بدھ کو بھی بھارت کے زیر انتظام کشمیر ميں دوبارہ مظاہرے کئے گئے۔ پوليس نے مظاہرين پر گولی چلا دی، جس سے کم از کم پانچ افراد ہلاک اور 17 زخمی ہو گئے۔ يہ مظاہرہ جنوب کے ہندو اکثريتی علاقے جموں ميں ميندھر کے مسلمان آبادی والے شہر ميں پيش آيا، جو سری نگر سے 450 کلوميٹر دور واقع ہے۔ ايک پوليس اہلکار نے اپنا نام بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہا: ''پوليس کو اس وقت گولی چلانا پڑی جب مظاہرين تشدد پر اتر آئے تھے اور جب آنسو گيس اور لاٹھی چارج کا بھی کوئی اثر نہيں ہوا تھا۔''
بھارتی زير انتظام کشمير مسلم اکثريت والا علاقہ ہے، ليکن اس منقسم صوبے ميں جنوب کا ہندو اکثريتی علاقہ جموں بھی شامل ہے۔ ميندھر ميں ہنگامے گذشتہ مہينوں کے دوران اس علاقے ميں ہونے والے پہلے ہنگامے ہيں اور يہ اس بات کی خبر ديتے ہيں کہ اس علاقے کو ايک ہنگامہ خيز موسم گرما کا سامنا ہے۔
ميندھر کے ايک ممتاز مذہبی رہنما آغا مختار نے خبر ايجنسی AFP کو ٹيلی فون پر بتايا کہ يہ ہفتہ کے روز امریکہ میں قرآن کے نذر آتش کئے جانے کے بعد میں منسوخ کر دئے گئے متنازعہ اعلان کے خلاف ايک بالکل پرامن مظاہرہ تھا۔ بھارت کے زير انتظام کشمير کے دوسرے مقامات پر مظاہرين نے منگل رات دو سرکاری عمارات کو آگ لگا دی اور کئی جگہوں پر مشتعل شہریوں اور پوليس کے درميان جھڑپيں بھی ہوئيں۔
پير کا دن تين مہينوں سے جاری ہنگاموں کا سب سے خونریز دن تھا، جس روز پولیس کی فائرنگ سے 17 افراد ہلاک ہو گئے، جن ميں ایک سڑک پر کھڑی ايک پانچ سالہ بچے کی ماں بھی شامل تھی۔ سری نگر ميں 11 جون کو پوليس کی طرف سے فائر کئے گئے آنسو گيس کے ایک شيل سے ايک نوجوان کی ہلاکت کے بعد سے بھارت کے زير انتظام کشمير ميں تقریباً روزانہ ہی شديد مظاہرے ہو رہے ہيں۔ ان مظاہروں میں زيادہ تر پوليس کی فائرنگ کے نتيجے ميں اب تک قریب 90 افراد مارے جا چکے ہیں۔
مسلم اکثريت والی وادیء کشمير کے تمام شہروں اور حساس ديہی علاقوں ميں 24 گھنٹے کا کرفيو نافذ ہے اور بھارتی پوليس اور نيم فوجی دستوں کے ارکان ہزاروں کی تعداد ميں سڑکوں پر گشت کر رہے ہیں۔ شہری روٹی، دودھ اور دوسری غذائی اشيا ميں کمی کی شکايت کر رہے ہيں۔ ايک ريٹائرڈ سرکاری افسر اعجاز رسول نے کہا: ''آپ ايک پوری آبادی کو بھوکا نہيں مار سکتے۔''
بھارتی وزير اعظم من موہن سنگھ نے کشمير کی نازک صورتحال پر غور کرنے کے لئے آج ہی ملک کی تمام سياسی جماعتوں کے ايک اجلاس کے موقع پر کہا کہ اُنہيں کشمير ميں ہلاکت خیز احتجاج سے بہت دکھ پہنچا ہے۔کانگريس پارٹی کی قائد سونيا گاندھی نے حکومت پر زور ديا ہے کہ وہ کشميريوں کی نئی نسل کی آواز پر کان دھرے جو تشدد،تنازعے اور بے رحمی کے ماحول ميں پروان چڑھی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہميں اس نسل کو اميد دينا اور اُس کی جائز خواہشات کا احترام کرنا چاہئيے۔ تاہم انہوں نے يہ بھی کہا کہ کشمير بھارت کا لازمی حصہ ہے۔
صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے ايک زير غور تجويز يہ ہے کہ اس سخت گير فوجی قانون کو ايک حد تک ختم کر ديا جائے، جس کے تحت کشمير ميں تعينات مسلح بھارتی فوج کا احتساب نہيں کيا جا سکتا۔ اس وجہ سے کشميريوں کا يہ احساس اور بھی بڑھ رہا ہے کہ اُن کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔
بھارت نے ماضی ميں کشمير ميں ہنگاموں کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالی ہے۔ کشمير، بھارت اور پاکستان کے درميان منقسم ہے ليکن دونوں پورے کشميرکے اپنا حصہ ہونے کے دعویٰ کرتے ہيں۔ کشميريوں کی اکثريت آزادی چاہتی ہے۔
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: مقبول ملک