1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمير ميں بھارتی فيصلے پر عملدرآمد: سڑکيں ويران، دکانيں بند

31 اکتوبر 2019

بھارت کی جانب سے کشمير کی خصوصی آئينی حيثيت کے خاتمے سے متعلق فيصلے پر عملدرآمد شروع ہو گيا ہے۔ اس موقع پر سری نگر سميت بھارت کے زیر انتظام کشمير کے کئی حصوں ميں نظام زندگی معطل ہے۔

https://p.dw.com/p/3SFfJ
Barrikaden und Bücher im unruhigen Kaschmir
تصویر: Reuters/D. Siddiqui

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں دکانیں اور دفاتر آج جمعرات کو بند ہیں اور سڑکیں تقریباً ویران ہیں۔ آج سے نئی دہلی حکومت کے اس متنازعہ فيصلے پر عملدرآمد شروع ہو گيا ہے جس کے تحت کشمير کی خصوصی آئينی حيثيت ختم کردی گئی۔ جموں و کشمير اب دو مختلف خطے ہيں، جن کے انتظامات اب براہ راست وفاقی حکومت سنبھالے گی۔

بھارتی حکومت نے اپنے زير انتظام کشمير کی خصوصی آئينی حيثيت کے خاتمے کا اعلان پانچ اگست کو کيا تھا۔ ساتھ ہی وہاں تعینات پوليس و فوجی دستوں کی بھارتی نفری میں مزید اضافہ کر دیا گیا اور مواصلات کے ذرائع بھی بند کر ديے گئے تھے۔ اس اقدام پر نہ صرف کشميری عوام بلکہ عالمی سطح پر کئی ممالک نے نئی دہلی حکومت کی مذمت کی۔ پاکستان کی جانب سے اس عمل کی مذمت اب بھی جاری ہے۔

بھارتی فيصلے پر عملدرآمد بدھ 30 اکتوبر کی شب مقامی وقت کے مطابق بارہ بجے شروع ہوا۔ يوں بھارت کے زير انتظام کشمير اب دو حصوں ميں تقسیم ہو گيا ہے۔ ايک حصہ جموں و کشمير ہے جب کہ دوسرا بدھ مت کے پيروکاروں کی اکثريت والا لداخ ہے۔ ان دونوں کی انتظام نئی دہلی حکومت براہ راست سنبھالے گی۔ دونوں خطوں کے گورنر آج ہی اپنے اپنے عہدوں کے حلف اٹھائيں گے۔

بھارتی وزير داخلہ امت شاہ نے اس پيش رفت پر کہا، ''جموں و کشمير کے انضمام کا ادھورا خواب آج پورا ہو گيا ہے۔‘‘ شاہ ہی کشمير کے حوالے سے بھارت کی حکمت عملی ترتيب دے رہے ہيں۔ بھارت کی کوشش ہے کہ اس علاقے ميں جائیداد کی خريد و فروخت کی اجازت دے کر وہاں اقتصادی ترقی کی رفتار بڑھائی جائے اور ملازمت کے مواقع پيدا کيے جائيں۔ يوں کشمير ميں دہائيوں سے جاری عليحدگی پسند تحريک سے توجہ ہٹ سکے گی۔ بھارت اپنے روايتی حريف ملک پاکستان پر اس تحريک کی عسکری حمايت کا الزام عائد کرتا ہے جبکہ پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ کشمير کے عوام کے حق خود اراديت کی حمايت کرتا ہے اور ان کی عسکری مدد نہيں کرتا۔ کشمير ميں مختلف کارروائيوں ميں چاليس ہزار سے زائد افراد ہلاک بھی ہو چکے ہيں۔

اکتيس اکتوبر کو بھارتی فيصلے پر عمل در آمد شروع ہونے کے موقع پر کشمير کے مرکزی شہر سری نگر ميں سڑکيں وغيرہ خالی دکھائی ديں۔ مقامی افراد نے احتجاجاً دکانيں بھی بند رکھی ہوئی ہيں۔ کسی ممکنہ نا خوشگور واقعے سے نمٹنے کے ليے پوليس اور فوج کی بھاری نفری تعينات ہے۔ تاہم سری نگر سے پتھراؤ کرنے کے بيس واقعات کی رپورٹيں موصول ہوئی ہيں۔

کشمير کی سابق وزير اعلی محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ بھارتی حکومت کو کشميريوں کے ساتھ تعلقات بڑھانے ہوں گے قبل اس کے کہ کشميری عوام خود کو مزيد تنہا محسوس کريں۔

ع س / ع ا، نيوز ايجنسياں