1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشتی پر سوار سو سے زائد روہنگیا مہاجرین کی گرفتاری

16 نومبر 2018

میانمار کے امیگریشن حکام نے ایک کشتی پر سوار ایک سو سے زائد روہنگیا مہاجرین کو حراست میں لے لیا ہے۔ اس اقدام کو میانمار کی حکومت کا ایک سخت اقدام قرار دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/38NAv
Krise Myanmar - Rohingya-Flüchtlinge
تصویر: Reuters/D. Siddiqui

میانمار کے امیگریشن حکام نے جس کشتی کو سمندر میں روکا، وہ رنگون سے تیس کلومیٹر کے فاصلے پر تھی۔ کشتی پر ایک سو چھ روہنگیا مہاجرین سوار تھے۔ مقامی امیگریشن افسر نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ان گرفتار ہونے والے روہنگیا افراد کا تعلق راکھین سے ہو سکتا ہے اور امکاناً یہ بنگالی ہیں جو راکھین ہی میں رہتے ہیں۔

اس کشتی کی تصاویر ایک خاتون رکن پارلیمنٹ اے میا میا میُو نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی ہیں۔ کشتی پر سوار خواتین نے اسکارف پہن رکھے ہیں۔ تصویر میں کشتی پر سوار بچے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ پکڑی جانے والی کشتی پر پچاس مرد، اکتیس عورتیں اور پچیس بچے سوار تھے۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ کشتی بنگلہ دیش کی جانب روانہ تھی یا اُس کی منزل ملائیشیا تھی۔

Myanmar Flucht Rohingya
اگست سن 2017 میں میانمار کی ریاست راکھین میں روہنگیا بستیوں کو فوجی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا تھاتصویر: picture-alliance/abaca

امدادی ورکروں کے مطابق گزشتہ ہفتے کے دوران بھی درجنوں روہنگیا مہاجرین نے کشتیوں پر سوار ہو کر ملائیشیا پہنچنے کی کوشش کی تھی۔ بنگلہ دیش میں اکتوبر کے بعد بارشوں کے موسم کے ختم ہونے پر اب سمندر قدرے پرسکون ہے اور ایسے میں بنگلہ دیش کے ریفیوجی کیمپوں اور میانمار سے روہنگیا نسل کے افراد ملائیشیا پہنچنے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں۔

بدھ مت کے ملک میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کو بنگالی قرار دیا جاتا ہے۔ اس باعث میانمار کی حکومت انہیں بنگلہ دیش کے غیر قانونی تارکین وطن قرار دیتی ہے۔ اس کے علاوہ میانمار کے حکومتی اور عوامی حلقے روہنگیا کو اپنے ملک کا کوئی نسلی اقلیتی گروپ ماننے سے بھی انکاری ہیں۔

اگست سن 2017 میں میانمار کی ریاست راکھین میں روہنگیا بستیوں کو فوجی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ فوج کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ملک کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث افراد کے خلاف سرگرم تھی۔ اس دوران سینکڑوں افراد کی ہلاکت اور کئی خواتین اور لڑکیوں کا جنسی استحصال بھی کیا گیا۔ سات لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین میانمار سے جانیں بچا کر اس وقت بنگلہ دیش میں عارضی کیمپوں میں مقیم ہیں۔ ان کی واپسی کی مفاہمت بنگلہ دیش اور میانمار کی حکومتوں کے درمیان طے پا چکی ہے لیکن ابھی واپسی کا عمل شروع نہیں ہو سکا ہے۔