1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کسی کو علاقائی سلامتی پر حاوی ہونے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے: شی جن پنگ

کشور مصطفیٰ21 مئی 2014

چینی صدر شی جی پنگ نے آج بُدھ کو شنگھائی میں ایشیا سکیورٹی سربراہی اجلاس کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر چینی سربراہ مملکت نے علاقائی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے مضبوط تر اتحاد اور تعاون پر زور دیا۔

https://p.dw.com/p/1C3xF
تصویر: Reuters

چینی صدر شی جن پنگ نے ڈھکے چھپے الفاظ میں امریکا کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ دیگر ممالک ایشیا میں اپنے عسکری اتحاد بنانے کی کوشش نہ کریں۔ چینی سربراہ مملکت نے یہ بیان آج بُدھ 21 مئی کو شنگھائی میں ایشیا سکیورٹی سربراہی اجلاس کے موقع پر دیا۔ شی جن پنگ نے علاقائی سلامتی و تعاون کو مضبوط بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ علاقائی تنازعات کو پُر امن طریقے سے حل کرنا پورے خطے کے مفاد میں ہے۔

ایشیا سکیورٹی سربراہی اجلاس کا انعقاد ایک ایسے وقت پر ہو رہا ہے جب علاقائی پالیسی اور بین الاقوامی سیاست میں چین کے کردار کو تشویش کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ دنیا کے 40 ممالک اور اداروں کے نمائندوں سمیت ویتنامی نائب صدر، فلپائن اور جاپان کے نمائندے اس اجلاس میں شریک ہیں۔ شی جن پنگ نے خاص طور سے جنوبی اور مشرقی چینی سمندری علاقوں میں گزشتہ چند برسوں کے دوران علاقائی تنازعات میں تیزی آنے کے پس منظر میں ان تنازعات کو پُر امن طریقے سے حل کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ تاہم اس موقع پر کسی ملک کا نام لیے بغیر ان کا کہنا تھا، ’’ایک تیسری پارٹی کو نشانہ بنانے کے لیے ملٹری اتحاد میں اضافہ کرنا علاقے میں مشترکہ سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے موزوں نہیں ہے۔‘‘ شی جن پنگ نے یہ بیان چند ایشیائی ممالک کی طرف سے واشنگٹن کے ساتھ اپنے سلامتی تعلقات کی مضبوطی کی دوبارہ یقین دہانی کے تناظر میں دیا۔

Japan China Streit um Insel Senkaku alias Diaoyu Luftfoto
چین اور جاپان کے مابین چند متنازعہ جزیروں پر جھگڑا چل رہا ہےتصویر: Reuters/Kyodo/Files

گزشتہ ماہ ایشیا کے دورے کے موقع پر امریکی صدر باراک اوباما نے بھی اپنے روایتی حلیف ممالک جاپان اور فلپائن کے ساتھ دفاعی تعلقات کو برقرار رکھنے کا یقین دلایا تھا۔ امریکا کی سیاسی حکمت عملی میں ایک عرصے سے تبدیلی کی نشاندہی ہو رہی ہے۔ واشنگٹن اب اپنی اسٹریٹیجک پالیسی میں زیادہ توجہ ایشیا اور بحرالکاہل کی طرف مبذول کر رہا ہے جسے چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا جواب تصور کیا جاتا ہے۔

چینی صدر کا کہنا تھا، ’’سرد جنگ کے دور میں سلامتی کا جو تصور پایا جاتا تھا، جس میں ایک ملک کسی دوسرے ملک کو نقصان پہنچاتے ہوئے اپنے مفادات حاصل کر لیتا تھا، جدید دور میں کارآمد ثابت نہیں ہو سکتا ہے۔‘‘ شی جن پِنگ کا مزید کہنا تھا، ’’کسی ملک کو بھی علاقائی سلامتی کے امور پر حاوی ہونے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔‘‘

US Präsident Barack Obama in Tokio
گزشتہ ماہ امریکی صدر نے جاپان سمیت متعدد ایشیائی ممالک کا دورہ کیا تھاتصویر: Reuters

شنگھائی میں منعقدہ اس اجلاس میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور اُن کے ایرانی ہم منصب حسن روحانی بھی شریک ہیں۔ اس موقع پر شی جی پنگ نے ایشیائی سلامتی اور تعاون کے ایک نئے ماڈل کی تشکیل پر زور دیا جو ایک ایسے گروپ پر مشتمل ہو جس میں روس اور ایران بھی شامل ہوں تاہم امریکا اس کا رکن نہ ہو۔ شنگھائی سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق آج بُدھ ہی کو چین نے روسی گیس کی خرید کے 400 بلین ڈالر مالیت کے ایک معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ اس اقدام کو سفارتی طور پر تنہا نظر آنے والے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی حمایت اور ماسکو کے ایشیا کے ساتھ تعلقات میں مضبوطی کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس گیس معاہدے سے متعلق مذاکرات کا سلسلہ گزشتہ 30 برسوں سے جاری تھا۔