1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کریمیا: اوباما کی خارجہ سیاست کا بڑا امتحان

Maqbool Malik10 مارچ 2014

روس کی منتخب شخصیات پر امریکی پابندیاں علامتی نوعیت کی ہیں۔ اس دوران روس کے خلاف فوجی کارروائی کا بھی کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا۔ ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار کے خیال میں یہ اصل سیاست ہے، اسے کمزوری سے تعبیر نہ کیا جائے۔

https://p.dw.com/p/1BMrv
تصویر: picture-alliance/dpa

ڈوئچے ویلے کے تبصرہ نگار میودراگ زورش کہتے ہیں کہ امریکی صدر باراک اوباما اور روسی سربراہ مملکت ولادیمیر پوٹن کی شخصیتیں ایک دوسرے سے بہت مختلف نہیں ہیں۔ جب یہ دونوں صدور ٹیلیفون پر بات کرتے ہیں توآداب کو بہت زیادہ دیر تک ملحوظ خاطر رکھنے کے بجائے فوراً ہی مقصد کی بات کرتے ہیں۔ زورش کے بقول صدر اوباما آج کل کریمیا کے روس کے ساتھ ممکنہ الحاق کے موضوع پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ وہ پولینڈ اور ہنگری کو جدید ہتھیار مہیا کرنے کا کہہ رہے ہیں اور ساتھ ہی پوٹن کو دھمکا بھی چکے ہیں کہ اگر روس نے اپنی روش نہ بدلی تو وہ عالمی سطح پر تنہائی کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔ اوباما جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں، ان کی بات بہت زیادہ قائل کرنے والی نہیں ہے۔

میودراگ زورش مزید لکھتے ہیں کہ واشنگٹن میں اگر سیاستدان نہ ہوں وہ تو امریکی دارالحکومت نہیں کہلائے گا۔ بہت سے امریکی سیاستدان کریمیا کے بحران سے داخلہ سیاسی فائدے اٹھانے کی کوشش میں ہیں۔ سینیٹر جان میک کین نے اوباما کی پالیسیوں کو انتہائی بے اثر اور کمزور قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اوباما روسی صدر کی اصل فطرت کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ کچھ اسی طرح کے خیالات کا اظہار سابق امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے بھی کیا۔ یورپ کے ساتھ کشیدگی کے تناظر میں انہوں نے مضبوط امریکی قیادت کا مطالبہ کیا۔ ان کے اس بیان کا ہتھیاروں کی لابی نے خیر مقدم کیا۔

G20 Gipfel Russland Sankt Petersburg Wladimir Putin und Barack Obama
تصویر: picture-alliance/dpa

اگر سیاست کو مدنظر رکھا جائے تو واشنگٹن کے سیاسی حلقے ایسا سوچ سکتے ہیں کہ سرد جنگ کا زمانہ لوٹ آیا ہے۔ لیکن زیادہ تر امریکی عوام انتہائی مختلف انداز سے اس سارے معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔ بہت کم تعداد ایسے لوگوں کی ہے، جن کا کہنا ہے کہ کریمیا کے بحران میں امریکا کو مداخلت کرنا چاہیے۔ افغانستان اور عراق میں امریکی جنگی کارروائیاں اختتام پذیر ہو چکی ہیں۔

ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار مزید لکھتے ہیں کہ امن بحال کرنا ایک طرح سے جارج ڈبلیو بش کی پالیسیوں سے انحراف ہے۔ کریمیا کے مسئلے میں اوباما روسی صدر کے ساتھ مصالحت کی تلاش میں ہیں۔ اسی وجہ سے روسی سیاستدانوں اور فوجی افسران کےخلاف امریکا کی جانب سے عائد کی جانے والی نئی پابندیاں علامتی انداز کی ہیں۔ امریکی صدر اس معاملے میں انتہائی محتاط ہیں اور رہیں گے۔ اگر روس یوکرائن کے مشرقی حصے پر قبضہ کرتا ہے تو پھر اقتصادی پابندیوں بھی عائد کی جا سکتی ہیں۔

ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار زورش کہتے ہیں کہ امریکی اقدامات کمزروی نہیں بلکہ اصل سیاست کی نشانی ہیں۔ امریکی صدر روس کی صلاحیتوں سے بخوبی واقف ہیں۔ روس اس کا مظاہرہ ابھی حال ہی شام کے تنازعے اور ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے جاری بات چیت میں کر چکا ہے۔ زورش کے بقول یہ حقیقت ہے کہ اوباما کے لیے خارجہ سیاست کا یہ اب تک کا سب سے بڑا امتحان ہے۔

میودراگ زورِش / عدنان اسحاق

مقبول ملک