1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کرک میں عورتوں کے محرم کے بغیر بازار جانے پر پابندی

ندیم گِل21 جولائی 2013

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقے کرک میں مذہبی رہنماؤں نے ایک فیصلہ دیا ہے جس کے اطلاق پر عورتوں کے تنہا بازار جانے پر عائد طالبان دَور کی پابندی بحال ہو جائے گی۔

https://p.dw.com/p/19BHV
تصویر: AFP/Getty Images

پولیس نے ہفتے کو اس بات کی تصدیق کی ہے کہ خیبر پختونخواہ کے علاقے کرک میں مولویوں نے اس پابندی کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے اس فیصلے میں کہا ہے کہ خواتین محرم کے بغیر بازار نہ جائیں۔

کرک کی مقامی مساجد کے کم از کم چار مولویوں نے جمعے کو ایک ملاقات کے بعد یہ فیصلہ کیا۔ خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق اسی روز مساجد سے لاؤڈ اسپکروں کے ذریعے اس پابندی کا اعلان بھی کر دیا گیا۔ تاہم پولیس نے اس کی تصدیق ہفتے کو کی ہے۔

فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا اس فیصلے کے پیچھے طالبان شدت پسندوں کا ہاتھ ہے یا نہیں۔

ایک پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ اس پابندی کا فیصلہ کرنے والے مولویوں نے مقامی پولیس اہلکاروں سے بھی ملاقات کی اور پابندی کے نفاذ کے لیے ان سے مدد مانگی۔ انہوں نے مزید بتایا: ’’حکام نے اس پر عمل کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ کسی کو بھی خریداری پر جانے سے روکنا قانون کے خلاف ہے۔‘‘

اس کے برعکس ضلعی پولیس اہلکار فضل حنیف نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ پولیس اس پابندی کی حمایت کر رہی ہے۔ اس پابندی کے مطابق محرم کے بغیر بازار جانے والی خواتین کو گرفتار کر لیا جائے گا جبکہ انہیں اشیا فروخت کرنے والے دکانداروں کو بھی سزا دی جائے گی۔

Pakistan Symbolbild Protest Frau Recht Gewalt Ehe Scheidung
یہ فیصلہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے، عورت فاؤنڈیشنتصویر: picture alliance/Photoshot

مقامی تاجر منور خان نے روئٹرز کو بتایا کہ کاروباری حلقہ اس پابندی کی مخالفت کر رہا ہے۔

ڈی پی اے کے مطابق اس پابندی کا اعلان کرنے والی کمیٹی کے ایک رکن مولانا میر زقیم نے پاکستان کے انگریزی روزنامہ ڈان کو بتایا: ’’یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا کیونکہ بیشتر تنہا عورتیں فحاشی کا باعث بن رہی ہے، بالخصوص رمضان کے مقدس مہینے میں۔‘‘

ان کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر یہ پابندی کرک میں نافذ کی جائے گی جو قبائلی علاقے اورکزئی کے قریب واقع ہے۔ اورکزئی میں طالبان سرگرم ہیں۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم عورت فاؤنڈیشن کی ریذیڈینٹ ڈائریکٹر شبینہ فراز کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ان کا کہنا ہے: ’’چند لوگ اس بات کا فیصلہ نہیں کر سکتے ہیں کہ پاکستان کی خواتین ، جو 180ملین آبادی کا نصف ہیں، کو اپنی زندگیاں کس طرح گزارنی ہے۔‘‘