1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کرد نوجوانوں کا یورپ میں پر تشدد احتجاج کرنے کا اعلان

13 مارچ 2018

جرمنی میں کرد نوجوانوں کے ایک گروپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ یورپ میں تباہی بر پا کر دیں گے۔ یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب جرمنی میں ترکی سے وابستہ مراکز کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2uE1w
GERMANY-KURDS-TURKISH-CONFLICT-DEMO
تصویر: AFP/Getty Images

انقرہ نے جرمنی سے مطالبہ کیا ہے کہ مراکز اور مساجد پر ہونے والے حالیہ حملوں میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جائے۔ جرمنی میں بائیں بازو کے ایک کرد گروہ کا گزشتہ ہفتے ترکی کے خلاف احتجاج کے دوران پولیس کے ساتھ  تصادم بھی ہوا۔ اس گروہ نے جرمنی میں ترکی سے منسلک مساجد پر حملوں کے بعد ایک اعلان میں کہا ہے کہ وہ یورپ کی گلیوں کو راکھ کر دیں گے۔

ترکی نے اس سال بیس جنوری سے کرد عسکریت پسندوں کے کنٹرول میں شامی شہر عفرین پر فوجی کاروائی کا آغاز کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے جرمنی میں کرد آبادی ترکی کے خلاف مظاہرے کر رہی ہے۔ ترکی کی سربراہی میں فوجیوں نے شامی کرد عسکریت پسندوں کے علاقے کو تقریباً اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ وہ جلد ہی عفرین پر قبضہ کر لیں گے۔ اس فوجی کارروائی کے ردعمل میں کردوں نے بھی جنگ اور نسل کشی کی دھمکی دی ہے۔

Türkei Erdogan droht USA wegen Kurden-Hilfen mit Konsequenzen
انقرہ نے جرمنی سے مطالبہ کیا ہے کہ مراکز اور مساجد پر ہونے والے حالیہ حملوں میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جائےتصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Ozbilici

کردوں اور ترکی کا یہ تنازعہ جرمنی میں بھی نظر آرہا ہے۔ اس یورپی ملک میں کرد اور ترک دونوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔ حال ہی میں برلن کی ایک مسجد کو تین نوجوانوں نے آگ لگا دی تھی۔ اس مسجد کوجرمنی کی ایک اسلامی تنظیم ’دیتب‘ چلا رہی ہے۔ عام تاثر یہی ہے کہ اس تنظیم کو ترک حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اس کے علاوہ جرمنی میں ایک ترک دکاندار اور ترک نژاد شہریوں کی ایک تنظیم پر آتشیں حملے کیے گئے ہیں۔ برلن اور ڈوسلڈورف میں ترک اور کرد مظاہرین کے درمیان لڑائی جھگڑے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔

Syrien Afrin - Konflikt Türkei-Kurden
ترکی کی سربراہی میں فوجیوں نے شامی کرد عسکریت پسندوں کے علاقے کو تقریباً اپنے کنٹرول میں لے لیا ہےتصویر: Getty Images/AFP/A. Shafie Bilal

پیر کے روز انقرہ نےجرمن حکومت سے کہا ہے کہ وہ جلد از جلد مساجد پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار کرے۔ دوسری جانب پیر کی شام جرمنی کے کئی بڑے شہروں میں کرد آبادی نے ترکی کے خلاف مظاہرے بھی کیے۔ ’روجا سیوان‘ نامی نوجوان کردوں کے ایک گروہ نے کہا کہ اگر یورپ ترکی کے عسکری آپریشن کی حمایت کرے گا تو اسے اس کی بہت بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ اس گروہ نے اپنے بیان میں کہا،’’ یورپی ریاستوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم اپنے لوگوں کے قتل عام پر خاموش نہیں رہیں گے۔ اب یورپ سے جنگ کرنا ہو گی۔‘‘

جرمنی میں تین ملین ترک نژاد افراد آباد ہیں۔ ان میں سے ایک تہائی افراد کرد ہیں جو انیس سو ساٹھ اور ستر کی دہائی میں کام کی تلاش میں جرمنی پہنچے تھے۔ اس آبادی میں اضافہ اس وقت ہوا جب انیس سو اسی اور نوے کی دہائی میں تنازعات اور قتل عام کی وجہ سے مزید کرد جرمنی پہنچے۔

Türkischer Ministerpräsident Yildirim in Deutschland - Kurden protestieren
جرمنی میں تین ملین ترک نژاد افراد آباد ہیں۔ ان میں سے ایک تہائی افراد کرد ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld

 گزشتہ چھ سالوں سے شامی شہر عفرین کو کرد جنگجوؤں کا گروہ ’وائی پی جی‘ کنٹرول کر رہا ہے۔ یہ گروہ کالعدم کرد تنظیم کردستان ورکرز پارٹی  ’پی کے کے‘ سے منسلک ہے۔ وائی پی جے امریکا کی پشت پناہی رکھنے والے والی ’سیریئن ڈیموکریٹک فورسز‘ کا ایک اہم جزو بھی ہے۔ یہ فوج شام میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف لڑ رہی ہے۔

چیز ونٹر/ ب ج