1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کرد علاقوں میں ریاستی اثر و رسوخ کی بحالی چاہتے ہیں، صدر اسد

1 نومبر 2019

شامی صدر بشارالاسد نے کہا ہے کہ ان کی حکومت کا ایک بنیادی ہدف شمالی شام میں کردوں کے زیر اثر علاقوں میں دمشق حکومت کی رٹ قائم کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ترکی کو ' دشمن‘ نہیں بنانا چاہتے۔

https://p.dw.com/p/3SKCw
Syrien Damaskus Fernsehinterview Assad
تصویر: picture-alliance/dpa/SANA

شامی صدر بشارالاسد کے مطابق ان کی حکومت چاہتی ہے کہ شمالی شام کے کرد علاقوں پر بھی ریاستی اختیار بحال ہو۔ تاہم ان کے بقول یہ عمل بتدریج ہو گا اور اس دوران نئے زمینی حقائق کا بھی خیال رکھا جائے گا۔ شام کے سرکاری ٹیلی وژن کو جمعرات کو دیے گئے اپنے اس انٹرویو میں اسد نے شمالی شام میں ایک بین الاقوامی حفاظتی زون قائم کرنے کی جرمن وزیر دفاع آنے گریٹ کارین باؤر کی تجویز مسترد کر دی۔ اسد کے بقول یہ تجویز بالآخر شام کی تقسیم کا باعث بن سکتی ہے۔

Syrien US-Militärkonvoi nahe der Stadt Qamishli
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Baderkhan Ahmad

 اس دوران شامی صدر نے ترکی اور روس کے مابین طے پانے والے اس معاہدے کو سراہا، جس کا تعلق ملک کے شمالی حصے سے کردوں کے انخلاء سے ہے۔ تاہم انہوں نے انقرہ کے ساتھ کسی ممکنہ جنگ کے امکان کو مسترد بھی نہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ ترکی اور روس کا یہ معاہدہ عارضی ہے، ''ہمیں حتمی اور اسٹریٹیجک اہداف اور ان تک پہنچنے کی حکمت عملی کے مابین فرق کرنا ہو گا۔‘‘ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ شامی دستے آخر کار ان علاقوں کا انتظام دوبارہ حاصل کر لیں گے، جو تازہ آپریشن کی وجہ سے ترکی کے زیر اثر چلے گئے ہیں۔

شامی دستوں کو 2012ء میں ان شمالی علاقوں سے نکلنا پڑا تھا۔ اس کے بعد سے کرد تنظیمیں وہاں کا انتظام سنھبالے ہوئے ہیں۔ کرد جنگجو تنظیمیں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف جنگ میں امریکا کی اتحادی بھی تھیں۔

اس تناظر میں صدر اسد نے کہا کہ کردوں سے  فوری طور پر ہتیھار ڈالنے کے لیے نہیں کہا جائے گا، ''وہاں پر مسلح گروہ ہیں اور ہم یہ توقع بھی نہیں کرتے کہ وہ فوری طور پر اپنے ہتھیار ہمارے حوالے کر دیں گے۔ ہم پہلے جیسے حالات چاہتے ہیں، جب اس علاقے کا مکمل انتظام ریاست کے ہاتھ میں تھا۔‘‘

اکتوبر کے آغاز میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی شام سے امریکی دستوں کے انخلاء کا اعلان کیا تھا، جس کے ساتھ ترکی کے لیے اس خطے میں کرد ملیشیا تنظیم 'وائی پی جے‘ کے خلاف عسکری کارروائی کی راہ ہموار ہو گئی تھی۔ ترکی اس تنظیم کو کالعدم کردستان ورکز پارٹی'پی کے کے‘ کا ایک بازو قرار دیتا ہے۔ 'پی کے کے‘ ایک طویل عرصے سے ترکی میں مسلح بغاوت میں ملوث رہی ہے۔

ترکی اور روس کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق کرد جنگجو شام کی ترکی سے ملنے والی سرحد سے متصل علاقوں سے نکل جائیں گے اور اس جگہ ایک محفوظ علاقہ قائم کیا جائے گا۔ انقرہ حکومت اس علاقے میں ان ساڑھے تین ملین شامی مہاجرین کو بسانے کا ارادہ رکھتی ہے، جو شامی خانہ جنگی کی وجہ سے ترکی میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ آج جمعہ یکم نومبر سے ان علاقوں میں روسی اور ترک دستوں نے مل کر حفاظتی گشت بھی شروع کر دی۔

شامی پناہ گزینوں کے لیے ترک ہلالِ احمر کی امدادی سرگرمیاں

ع ا م م