کراچی کے ممکنہ میئر جیل سے آفس چلائیں گے
24 اگست 2016وسیم اختر پاکستانی صوبہ سندھ کی ایک بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے رکن ہیں جنہیں گزشتہ ماہ مبینہ طور پر عسکریت پسندوں کی مدد کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اختر کو آج میئر کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کے حتمی مرحلے میں ووٹ ڈالنے کے لیے جیل سے پولیس کی بکتر بند گاڑی میں لایا گیا۔ یہ ووٹنگ برطانوی دور کی تعمیر شدہ بلدیہ عظمی کراچی کی عمارت میں ہوئی۔
متحدہ قومی موومنٹ نے گزشتہ برس دسمبر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی لیکن قانونی دشواریوں کے باعث میئر کے انتخابات کے لیے ووٹنگ کا مرحلہ مکمل نہیں ہو سکا تھا۔ ان قانونی اعتراضات کی رو سے بلدیہ کونسل کے اراکین ووٹ کاسٹ نہیں کرسکتے تھے۔ ایم کیو ایم کی طرف سے سید وسیم اختر کو میئر شپ کے لیے امیدوار نامزد کیا گیا تھا اور بطور میئر ان کے انتخاب کا یقینی امکان ہے۔
بلدیہ عظمی کراچی کی عمارت کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے وسیم اختر کے وکیل محفوظ یار خان کا کہنا تھا، ’’میرے مؤکل جیل میں اپنا آفس کھولیں گے اور کونسل کے اجلاس میں ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کیا کریں گے۔ وہ کراچی کو ویڈیو لنک کے ذریعے پانچ سال تک چلا سکتے ہیں۔‘‘ ایم کیو ایم کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ وہ پولیس سے درخواست کریں گے کہ وسیم اختر کو جیل میں ساز وسامان سے آراستہ آفس دیا جائے۔
پولیس کی قید میں ایک سیاست دان کا بطور میئر انتخاب کا مرحلہ بیس ملین کی آبادی والے ساحلی شہرکراچی پر کنٹرول حاصل کرنے کی جاری جدوجہد کی علامت ہے۔ وسیم اختر کی سیکولر سیاسی جماعت ایم کیو ایم کو کئی عشروں سے کراچی کی سیاست اور معیشت پر کنٹرول حاصل رہا ہے تاہم شہر میں سن 2013 سے جرائم کے خلاف جاری آپریشن نے ایم کیو ایم کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔
دو روز قبل متحدہ قومی موومنٹ کے لندن میں مقیم جلا وطن سربراہ الطاف حسین کے پاکستان کے حوالے سے نامناسب کلمات اور ان کے نتیجے میں ایک میڈیا ہاؤس پر مبینہ طور پر ایم کیو ایم کے کارکنان کے حملے کے بعد اس جماعت کے ہیڈکوارٹرز کو سیل کر دیا گیا تھا۔