1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی کے علاقے لیاری میں گینگ وار، لوگ ہجرت پر مجبور

رفعت سعید، کراچی18 جولائی 2013

70 سالہ حاجیانی نادرہ کی تمام عمر لیاری کی ان گلیوں میں گزری ہے جہاں اب موت کا راج ہے۔ وہ اور ان جیسے کئی نہ چاہتے ہوئے بھی موت کے خوف سے لیاری چھوڑنے پر مجبور ہیں۔

https://p.dw.com/p/199n7
تصویر: Rafat Saeed

نادرہ بی بی جو کہ ایک بزرگ خاتون ہیں بڑھاپے میں اپنا آبائی علاقہ چھوڑنا نہیں چاہتیں لیکن وہ انتہائی مجبور ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’اگر کچھ دن پہلے مر جاتی تو اچھا تھا، کم از کم یہاں سے جانا تو نہ پڑتا۔ مگر کیا کریں؟ جہاں روز گولیاں اور آگ برس رہی ہو، وہ جگہ رہنے کے قابل نہیں رہتی۔‘‘

ضعیف العمر قادر بخش کہتے ہیں کہ وہ سات برس کی عمر میں والدین کے ہمراہ لیاری آئے تھے اور ان کی تین نسلیں یہیں آباد ہیں۔ اب اس عمر میں انہیں یہ ستم بھی سہنا تھا کہ گھر چھوڑنا پڑ رہا ہے۔گزشتہ کئی مہینوں سے جاری لیاری گینگ وار نے اب ایک ایسا روپ دھار لیا ہے کہ کچھی برادری کے لوگ یہاں سے نقل مکانی کرکے بدین اور ٹھٹہ جانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا، جب لیاری میں جدید ہتھیاروں سے مورچہ بند فائرنگ نہ ہوتی ہو۔

لیاری میں جاری گینگ وار کی بدولت بے گناہ افراد کی ہلاکت معمول بن چکا ہے
لیاری میں جاری گینگ وار کی بدولت بے گناہ افراد کی ہلاکت معمول بن چکا ہےتصویر: ASIF HASSAN/AFP/Getty Images

یہ تنازعہ بظاہر لیاری میں آباد بلوچ اور کچھی برادری کے درمیان ہے۔ بلوچ گروپ کو سندھ میں حکمران پیپلز پارٹی کی پشت پناہی حاصل ہے جبکہ ان کی مخالف کچھی برادری کے پانچ ہزار خاندانوں میں سے زیادہ تر نے گیارہ مئی کو ہونےوالے انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ کو ووٹ دیا تھا۔ اب ان کے نمائندے احمد کچھی کہتے ہیں کہ اس بات پر وہ مسلسل لیاری گینگ کی انتقامی کاروائیوں کا نشانہ ہیں۔ لیاری گینگ جو بلوچ گروپ کا نام بن گیا ہے اور جس کے بارے میں خود غیر جانبدار بلوچ مبصر کہتے ہیں کہ وہ کچھیوں کو زیادتی کا نشانہ بنارہا ہے۔ سعید سربازی صحافی ہیں اور لیاری میں ہی پیدا ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس بات سے بلوچ آبادی اچھی طرح واقف ہے کہ گینگ کے لوگ کچھیوں کے ساتھ ناانصافی پر کمر بستہ ہیں۔
لیاری کی بدامنی اور نقل مکانی سے بچے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ ہجرت کرنے والے بچوں کو سب سے زیادہ فکر اپنے اسکول کی ہے۔ پانچ سالہ ہاجرہ اور چھ سالہ علینہ اپنے بستے مضبوطی سے پکڑے مسافر بسوں کی جانب گامزن تھیں۔ جب پوچھا کہ اسکول میں گرمیوں کی چھٹیاں ہیں بستے کیوں لیے جارہی ہو تو کہنے لگیں، ’’اب نئے اسکول میں داخلہ لیں گے تو کتابیں اور کاپیاں چاہیے ہوں گی ابو کے پاس پیسے نہیں ہیں وہ نئی کتابیں کیسے دلائیں گے۔‘‘


لیاری کا مسئلہ اتنا سنگین ہوچکا ہے کہ وزیر اعلٰی سندھ نے بھی اس کے حل کے لیے ایک کمیٹی قائم کی ہے۔ وزیر قانون سندھ ڈاکٹر سکندر مندرو اس کیمٹی کے سربراہ ہیں اور تاج حیدر، راشد ربانی اور علی مردان شاہ کمیٹی کے اراکین میں شامل ہیں۔
کمیٹی کے اراکین نے جمعہ 12جولائی کو ان علاقوں کو دورہ کیا،جہاں سے لیاری کے کچھی خاندان نقل مکان کر رہے ہیں۔
لیاری میں آباد بلوچوں کی نمائندہ تنظیم پیپلز امن کمیٹی کچھیوں کے الزامات کو یک سر مسترد کرتی ہے۔ پیپلز امن کیمٹی کے رہنما ظفر بلوچ کے مطابق بیرونی عناصر باہر سے آکر لیاری کا امن برباد کررہے ہیں۔ اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ لیاری میں بلوچ کچھیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ وہ اس ساری بدامنی کی ذمہ داری متحدہ قومی موومنٹ پر ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ MQM کے کارکن باہر سے آتے ہیں اور بلوچو ں پر حملے کرتے ہیں۔


پیپلز پارٹی سندھ کے سیکرٹری جنرل تاج حیدر بھی پیپلز امن کمیٹی کے اس موقف سے متفق ہیں کہ لیاری میں بدامنی بیرونی عناصر پھیلا رہے ہیں۔ تاج حیدر تو یہ بھی کہتے ہیں لیاری کا مسئلہ انتظامی ہے اور اسے پیپلز پارٹی کی حکومت کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ لیکن ان کا اشارہ مرکزی حکومت کی جانب ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’لیاری کی 16میں سے صرف چار یونین کونسلز میں حالات خراب ہیں اور وہ بھی جان بوجھ کر خراب کیے جارہے ہیں۔ ورنہ لیاری کے دیگر علاقوں میں کچھیوں کی کہیں زیادہ تعداد آباد ہے۔ ان علاقوں میں کوئی انہیں مار رہا ہے اور نہ ہی کوئی ہجرت کررہا ہے۔‘‘
مگر جو ہجرت کر رہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ان کی زندگی اب بے سروسامانی کی ہوگئی ہے۔ چاہے یہ لڑائی کسی گینگ وار کا حصہ ہو یا سیاسی چپقلش ہو، ان سے ان کے آبائی گھر چھن گئے ہیں۔ کیا وہ اب واپس اپنے گھروں کو آسکیں گے؟ اس سوال کا جواب حکومت کی بنائی ہوئی کمیٹی کے پاس بھی نہیں۔

’’کوئی دن ایسا نہیں گزرتا، جب لیاری میں جدید ہتھیاروں سے مورچہ بند فائرنگ نہ ہوتی ہو‘‘
’’کوئی دن ایسا نہیں گزرتا، جب لیاری میں جدید ہتھیاروں سے مورچہ بند فائرنگ نہ ہوتی ہو‘‘تصویر: Reuters