1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی کے سیاسی ماحول میں شدید تناؤ

20 مئی 2013

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ انتخابات میں سیاسی تبدیلی کا آغاز کراچی ہے۔ کراچی کا این اے 250 متحدہ قومی موومنٹ کا مضبوط گڑہ تصور کیا جاتا تھا تاہم اب یہاں سے تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر عارف علوی منتخب ہو گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/18b0q
تصویر: picture-alliance/dpa

پاکستان تحریک انصاف کے ڈاکٹر علوی کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کے حلقے این اے دو سو پچاس میں دوبارہ پولنگ نے واضح کردیا ہے کہ اگر گیارہ مئی کے انتخابات میں قانون نافذ کرنے والے ادارے خصوصاً فوج سکیورٹی فراہم کرتی تو شہر کی صورتحال مختلف ہوتی۔


این اے دو سو پچاس میں نیا موڑ اس وقت آیا جب انتخابات سے ایک روز قبل تحریک انصاف کی خاتون رہنما زہرہ شاھد کو اسی حقلہ میں ا ن کے گھر کے باہر گولیاں مار کرقتل کردیا گیا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اس قتل کی ذمہ داری ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین پر عائد کی۔ الزام عائد کیے جانے کے چند گھنٹوں بعد ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے لندن سے خطاب اور اپنی ہی جماعت کی کراچی میں موجود قیادت پر برس پڑے۔ اس پر کارکنان میں کراچی قیادت کے خلاف اشتعال دیکھا گیا اور یہیں سے پی ٹٰی آئی اور ایم کیو ایم کے درمیان بھرپور کشیدگی کا آغاز ہو گیا۔

Altaf Hussain
عمران خان نے اس قتل کی ذمہ داری ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین پر عائد کی۔ الزام عائد کیتصویر: Usama1993/cc/by/sa


ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان کشیدگی کے اثرات اور تحریک انصاف کی جانب سے کراچی میں نشستیں حاصل کرنے کے حوالے سے سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے ڈویچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے کراچی میں توقع کے برخلاف ووٹ حاصل کیے ہیں جبکہ تحریک انصاف کا کراچی میں تنظیمی ڈھانچہ اس قدر مستحکم نہیں تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ بات صرف نشستوں کے حصول کی نہیں بلکہ جس طرح اور جس تعداد میں پی ٹی آئی نے ووٹ حاصل کیے ہیں وہ ایم کیوایم، جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی سمیت سب کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔
مظہر عباس نے مشورہ دیا کہ ایم کیو ایم کو شہر کے وسیع تر مفاد میں نتائج کو تسلیم کرنا چاہیے تاکہ کراچی میں سیاسی کلچر مضبوط ہوسکے۔

ایکسپریس ٹربیون سے وابسطہ صحافی فراح ناز زاہدی کے مطابق انتخابات کے بعد سیاسی جماعتوں کو اپنی غلطیوں کی خود نشاندہی کرکے انہیں درست کرنا ہوگا۔ کراچی کے لوگ اب پرتشدد سیاست سے تنگ آ چکے ہیں۔ لہذا تحریک انصاف کی صورت میں انہیں دیگر جماعتوں کا متبادل نظر آرہا ہے۔
سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ پرامن تبدیلی کی بات صرف تحریک انصاف کررہی ہے ۔ وہ ایم کو ایم کو قبول نہیں ہے۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم میں موجود داخلہ انتشار اس وقت سامنے آیا جب عمران خان نے الطاف حسین پر قتل الزام عائد کیا۔ یہی وجہ ایم کیو ایم کے قائد کی ناراضگی کے بعد رابطہ کمیٹی کے اراکین نے معافی مانگی اور آج کراچی سمیت ملک بھر میں عمران خان کے خلاف ایم کیو ایم کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ ان میں مظاہرین نے عمران خان سے معافی کا مطالبہ کیا ہے۔۔

Pakistanische Reformpolitikerin Zara Shahid Hussain bei Anschlag getötet
انتخابات سے ایک روز قبل تحریک انصاف کی خاتون رہنما زہرہ شاھد کو ان کے گھر کے باہر گولیاں مار کرقتل کردیا گیاتصویر: Reuters

ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے رکن وسیم آفتاب نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان اور تحریک انصاف کو آڑے ہاتھوں لیا۔ وسیم آفتاب نے عمران خان کو تہذیب سے گرا ہوا شخص اور تحریک انصاف کو تہذیب سے گری ہوئی جماعت قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے نیا پاکستان بنانے کا نعرہ دے کر قوم کو بے وقوف بنایا ہے۔
دوسرے جانب تحریک انصاف عمران خان کے موقف کی بھر پور تائید کرتی نظر آرہی ہے اور ان کی ہدایت کے مطابق آج کراچی میں مزار قائد کے سامنے مظاہرہ کیا گیا ہے۔ اس دوران نہ صرف پاکستانی بلکہ برطانوی حکومت سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی شہری کی پاکستان میں اشتعال انگیزی اور دہشت گردی کا نوٹس لیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے درمیان کراچی میں شروع ہونے والی انتخابی ٹسل تیزی سے اس جانب گامزن ہے جہاں دونوں جماعتوں کے کارکنان کے ہاتھ ایک دوسرے کے گریبانوں میں ہونگے۔ اور اگر ایسا ہوا تو سیاسی دباؤ کا شکار قانون نافذ کرنے والے تباہ حال ادارے اس صورت حال کوکنٹرول کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

رپورٹ: رفعت سعید کراچی

ادارت : عدنان اسحاق