1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’کراچی کا بادشاہ، ایک معمولی پولیس والا‘

30 مارچ 2013

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایک بدعنوان معمولی پولیس اہلکار کا شمار شہر کے طاقتور لوگوں میں رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ ناجائز جوئے خانوں کے کنٹرول سے ’ترقی کرتا ہو اس مقام‘ تک پہنچا۔

https://p.dw.com/p/187AC
تصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images

کراچی میں وسیم ’بیٹر‘ کے نام سے مشہور محمد وسیم احمد کے خلاف یہ الزامات ابھی حال ہی میں حیرت انگیز طور پر اس وقت سامنے آئے جب پولیس کے ایک اعلیٰ کمانڈر نے سپریم کورٹ کے ایک جج کے سامنے اس حوالے سے گواہی دی۔

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اس کہانی سے کراچی میں ’جرائم کی دنیا‘ کی نادر لیکن رنگین جھلک دکھائی دیتی ہے۔ ایک کروڑ 80 لاکھ آبادی کا یہ شہر پرتشدد کارروائیوں کے لیے بدنام ہے۔ اغوا کی وارداتیں، ہدف بنا کر کی جانے والی ہلاکتیں، شدت پسندوں کی جانب سے بم دھماکے اور فرقہ وارانہ قتل و غارت، ایسی کوئی نہ کوئی خبر کراچی سے ملتی رہتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ خطرہ کہ طالبان شہر میں جڑ پکڑنے کے لیے وہاں کی بحران زدہ کیفیت کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری جو کئی مہینوں سے کراچی کی صورتِ حال پر کیس کی خصوصی سماعت کی قیادت کر رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے انہوں نے مطالبہ کیا کہ پولیس ’نو گو‘ ایریاز ختم کرنے کے لیے کارروائی کرے۔

کراچی کے پولیس حکام نے اے پی کو وسیم ’بیٹر‘ کے بارے میں اضافی معلومات فراہم کی ہیں۔ اسے پولیس فورس سے ہٹا دیا گیا جس کے بعد وہ دبئی فرار ہو گیا۔ اے پی کا کہنا ہے کہ اس سے رابطے کی متعدد کوششیں ناکام رہیں۔

وہ 1990ء کی دہائی میں پولیس میں شامل ہوا۔ اس سے ذاتی طور پر واقف نصف درجن پولیس افسروں نے اپنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ جسم فروشی، جوئے خانوں اور منشیات کی تجارت جیسی ناجائز سرگرمیوں سے ہونے والی آمدن کا ’حصہ‘ اعلیٰ پولیس اہلکاروں کو پہنچاتا تھا۔

Pakistan Karatschi Stadt
کراچی آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہےتصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images

ان کا کہنا ہے کہ وہ یہ کام ’احسن طریقے’ سے انجام دیتا تھا، جس کی وجہ سے اعلیٰ افسروں میں اس کی اچھی ساکھ بنی اور وہ اسے مزید آگے لے گئی۔ اسے کراچی کے علاقے گھاس منڈی میں جوئے کے ناجائز اڈے چلانے والے ایک مقامی ’باس‘ کی توجہ بھی ملی۔

پولیس کے کئی اعلیٰ عہدوں پر ہونے والی تعیناتیوں میں اس کی مرضی شامل ہونے لگی تھی اور اس نے درجن بھر محافظوں کے ساتھ باہر نکلنا شروع کر دیا تھا۔ رواں برس جنوری میں سپریم کورٹ کے ایک مقدمے کی سماعت سے یہ سلسلہ اس وقت رکا جب ایک درخواست گزار نے الزامات عدالت کے سامنے رکھے۔ چیف جسٹس افتخار چودھری نے اعلیٰ پولیس اور سویلین اہلکاروں سے وسیم کے خلاف الزامات کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے لاعلمی ظاہر کی۔ تاہم ڈپٹی انسپکٹر جنرل بشیر میمن بول پڑے اور انہوں نے درخواست گزار کے دعووں کی تائید کر دی۔

بشیر میمن نے اے پی کو بتایا: ’’میں نےکہا ہاں، وسیم ’بیٹر‘ کراچی پولیس کے اعلیٰ عہدوں میں شامل ہے۔ وہ کراچی میں جوئے خانوں کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے۔ میں نے اس بات کی تصدیق بھی کی جونیئر اور سینئر پولیس اہلکاروں کے تبادلوں اور تعیناتیوں میں بھی اس کا ہاتھ ہے۔‘‘

جسٹس چودھری نے وسیم پر ہاتھ نہ ڈالنے پر اعلیٰ اہلکاروں کی سرزنش کی اور میمن سے پوچھا کہ اپنے ساتھیوں سے اختلافات نے انہیں کسی تشویش میں مبتلا تو نہیں کر دیا۔

میمن نے بتایا: ’’میں نے جواب دیا، میں نے تو آپ کو سچ سے آگاہ کیا ہے۔‘‘

پولیس فورس میں پائی جانے والی بدعنوانی نہ صرف حالات پر قابو پانے کی کوششوں کے لیے جھٹکا ہے بلکہ اس سے صورتِ حال اور بھی ابتر ہے۔ نیویارک میں قائم ایشیا سوسائٹی کے تجزیہ کار حسن عباس کا کہنا ہے کہ کراچی میں چار سو پولیس اہکاروں کے خلاف کریمنل کیسز التوا کے شکار ہیں۔

ng/zb (AP)