1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی پولیس نشانے پر، چوبیس دنوں میں تیس اہلکار ہلاک

رفعت سعید، کراچی27 جنوری 2014

کراچی پولیس کی مجموعی نفری ستائیس ہزار ہے اور صرف ستّرہ سو بلٹ پروف جیکٹیں دستیاب ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ دوران ڈیوٹی ہر اہلکار بلٹ پروف جیکٹ پہن سکے اور حملہ آور اسی کمی کا فائدہ اٹھارہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Axns
تصویر: Reuters

کراچی میں جاری دہشت گردانہ کارروائیوں کا رخ اب مکمل طور پر قانون نافذ کرنے والے ادارے خصوصاﹰ پولیس کی جانب ہوچکا ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ سال دو ہزار چودہ کے ابتدائی ستائیس ایام میں تیس پولیس اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔

ہلاک ہونے والوں میں پولیس کے سپاہی سے لے کر ایس پی سطح تک کے افسر شامل ہیں۔ گزشتہ برس مسلح حملہ آوروں نے پولیس کے 170 افسران اور اہلکاروں کو قتل کیا جبکہ رواں برس حملہ آوروں کے حوصلے مزید بلند ہوچکے ہیں اور یہ مزید مہلک حکمت عملی اختیار کر چکے ہیں۔

مسلح حملہ آوروں کی نئی حکمت عملی

حال ہی میں ایس پی سی آئی ڈی چودھری اسلم کے قافلے کو خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ کئی پولیس موبائل گاڑیوں پر ڈیوٹی کے دوران حملے کیے گئے اور لانڈھی میں ہونے والے تازہ ترین حملے بالکل ہی نئی حکمت عملی کے تحت ہوئے۔ پہلے سڑک کنارے حفاظتی ڈیوٹی پر تعینات پولیس موبائل پر دستی بم حملہ کیا گیا اور پھر واقعہ کی اطلاع ملنے پر جب دوسری موبائل وہاں پہنچی تو اس پر اندھا دھند گولیاں چلائی گئیں۔ دونوں حملوں میں چھ اہلکار مارے گئے تھے۔ اس طرح صرف چوبیس دنوں میں مارے جانے والے اہلکاروں کی تعداد تیس بنتی ہے۔ حملہ آوروں کی حکمت عملی بہت تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔ لہٰذا پولیس کے افسران بھی اس سوچ میں مصروف ہیں کہ چومُکھی لڑائی کا توڑ کیا ہوسکتا ہے۔

Pakistan Karatschi Stadt Polizei
کراچی پولیس کے سربراہ شاہد حیات ان حملوں کو کراچی آپریشن کے دوران دہشت گردوں کو پہنچنے والے نقصان کا ردعمل قرار دیتے ہیںتصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images

کراچی پولیس کے سربراہ شاہد حیات ان حملوں کو کراچی آپریشن کے دوران دہشت گردوں کو پہنچنے والے نقصان کا ردعمل قرار دیتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہےکہ اس طرح کے حملوں سے پولیس کے حوصلے پست نہیں کیے جاسکتے۔ ان کے مطابق پولیس نہ صرف اس طرح کے حالات کا مقابلہ کرچکی ہے بلکہ امن قائم کرنے میں بھی کامیاب رہی ہے اور آئندہ بھی فتح پولیس کی ہی ہوگی۔

پولیس چیف کے دعویٰ اپنی جگہ لیکن تجزیہ کار اور شہر میں جرائم کے بڑے واقعات کی کوریج کرنے والے صحافیوں کے مطابق مسلح حملہ آور پولیس کو شہر میں اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہیں۔

کراچی کے سب سے بڑے ضلع شرقی میں تعینات ڈی آئی جی منیر احمد شیخ کہتے ہیں کہ پولیس نے بھی اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے۔ پہلے پولیس گرفتار کیے جانے والے ملزمان سے تفتیشن کی روشنی میں آگے بڑھتی تھی لیکن اب مکمل تحقیقات کے بعد صرف ان افراد پر ہاتھ ڈالا جارہا ہے، جو دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ میں مصروف ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ چند روز قبل عادل جمیل نام کے ملزم کو گرفتار کیا گیا تھا، جو ایک سو سے زائد افراد کے قتل میں ملوث ہے۔

پولیس کو میسر ناکافی سہولیات

سندھ پولیس کے سربراہ شاہد ندیم بلوچ بھی پولیس کے حوصلے بلند رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ آئی جی نے حکومت سے پہلے بلٹ پروف گاڑیوں اور اب دو ہزار بلٹ پروف جیکٹوں کی خریداری کی منظوری حاصل کی ہے۔ آئی جی سندھ کے مطابق کراچی پولیس کی مجموعی نفری ستائیس ہزار ہے اور صرف ستّرہ سو بلٹ پروف جیکٹیں دستیاب ہیں۔ ان کے مطابق یہ ممکن ہی نہیں کہ دوران ڈیوٹی ہر اہلکار بلٹ پروف جیکٹ پہن سکے اور حملہ آور اسی کمی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں پولیس کے انٹیلیجنس نظام کی ناکامی کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اصل مسئلہ کراچی کی آبادی میں غیر معمولی اضافے اور پولیس میں اضافے کے درمیان عدم توازن سے پیدا ہوا ہے۔ ان کے مطابق اس کمی کو پورا کرنے کے لیے پولیس میں ایک ہزار ریٹائرڈ فوجی اہلکار بھرتی کیے جارہے ہیں۔ آئی جی سندھ نے کہا کہ ان اہلکاروں کو تربیت کی کوئی ضرورت نہیں اور ان سے آپریشنل کارروائیوں میں بہتری آئے گی۔

سیاسی جماعت کا عسکری ونگ

کراچی میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کی سربراہی رینجرز کا محمکمہ کر رہا ہے اور ڈائریکٹر جنرل سندھ رینجرز میجر جنرل رضوان اختر بار ہا کہہ چکے ہیں کہ کراچی کی ٹارگٹ کلنگ میں ایک سیاسی تنظیم کا عسکری ونگ ملوث ہے۔ یہی بات کراچی پولیس کے شاہد حیات بھی کرتے ہیں لیکن دونوں فورسز کے سربراہان اس قدر مصلحت پسندی کا شکار ہیں کہ اس تنظیم کا نام لینے سے گریزاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تنظیم کا نام لینے سے ان پر سیاست میں ملوث ہونے کا الزام لگایا جائے گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہی مصلحت پسندی کراچی کی تباہی کی وجہ بن رہی ہے۔