1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشیدگی کو لسانی رنگ نہ دیا جائے، حکومت سندھ کا انتباہ

15 جولائی 2022

پشتون اور سندھی برادریوں کے مابین کسی ممکنہ تشدد کے پیش نظر کراچی کے حساس مقامات پر سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے جبکہ سہراب گوٹھ میں پولیس اور رینجرز طلب کر لیے گئے ہیں۔ بلال کاکا کی ہلاکت کے بعد تناؤ بدستور برقرار ہے۔

https://p.dw.com/p/4ECuC
Pakistan Armee | Soldat vor Moschee in Karachi
تصویر: Getty Images/AFP/R. Tabussum

صوبہ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں مقامی نوجوان بلال کاکا کے قتل کو جواز بناکر قوم پرست تنظمیوں نے پشتون برادری کے کاروبار اور املاک کو نقصان پہنچایا ہے۔ گزشتہ روز کراچی کے ساتھ نواب شاہ اور سکھر سمیت دیگر شہروں میں پشتونوں کے چائے کے ہوٹلوں کو زبردستی بند کرانے کے دوران انہیں نقصان بھی پہنچایا گیا، جس کے خلاف پشتون برادری نے کراچی میں سہراب گوٹھ پر احتجاجاٰ سپرہائی وے بلاک کر دی۔

مظاہرین نے کئی شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور سڑک پر موجود گاڑیوں سمیت عام شہریوں کی املاک کو  نقصان بھی پہنچایا، جس کے بعد قانون حرکت میں آیا اور 150 مشتبہ افراد کو جلاؤ گھیراؤ اور نقص امن کے الزامات میں گرفتار کر لیا گیا۔ اطلاعات ہیں کہ اس دوران مشتعل افراد کی طرف سے فائرنگ کے نتیجے میں دو افراد مارے بھی گئے۔

قانون شکنی کی اجازت کسی کو نہیں، وزیر اعلٰی

سندھ حکومت معاملے کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس مسئلے کا پرامن حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ ساتھ ہی شہریوں کو پرامن رہنے کی تاکید بھی کی جارہی ہے۔ 14 جولائی کو کراچی اور حیدر آباد میں بلدیاتی انتخابات بھی ہونے ہیں اور سندھ حکومت سمجھتی ہے کہ اس صورت حال کا تمام فائدہ سیاسی حریفوں پاکستان تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کو پہنچ سکتا ہے، لہذا صوبائی حکومت کی پوری کوشش ہے کہ اس معاملے کو جلد از جلد پر امن طریقے سے حل کر لیا جائے۔

وزیر اعلٰی سندھ سید مراد علی شاہ نے اطراف سے اپیل کی ہے کہ صوبہ کسی صورت لسانی فساد کا متحمل نہیں ہو سکتا اور جرم کو جرم کی طرح ہی دیکھنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا،''  تمام شہری پر امن رہیں، قانون اپنا کام کر رہا ہے۔ مجرم جلد قانون کی گرفت میں آ جائے گا۔ کوئی قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش نا کرے ورنہ سختی سے نمٹا جائے گا۔‘‘

مراد علی شاہ نے مزید کہا کہ کچھ عناصر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کے لیے سوشل کے ذریعے تعصب اور نفرت کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ لوگ اس شہر اور صوبے سمیت کسی کے بھی خیر خواہ نہیں ہیں۔

وزیر اعلٰی سندھ نے کہا کہ جرائم پیشہ کی نہ کوئی قومیت ہوتی ہے اور نا ہی کوئی شناخت۔ انہوں نے تمام صوبائی وزراءکو بھی ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ سندھی قوم پرستوں اور پشتون رہنماؤں سے رابطہ کرکے دونوں برادریوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے مذاکرات کا اہتمام کریں۔

تشدد نا سندھیوں کے حق میں بہتر ہے نا پشتونوں کے، منظور پشتین

پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما منظور پشتیں نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، "کسی ایک معاملے پر پوری پشتوں برادری کو نشانہ بنانا درست عمل نہیں ہے۔"

ان کا کہنا تھا، ''سندھ اور پشتون دونوں محکوم قومیں ہیں، اس معاملے کو پر امن طریقے سے قانون اور عدالتی کاروائی کے ذریعے باآسانی حل کیا جا سکتا ہے۔  میں طرفین سے اپیل کروں گا کہ یہ معاملہ پرامن طور پر حل کیا جا سکتا ہے، پرتشدد واقعات نا سندھیوں کے حق میں ہیں اور نا پشتونوں کے لیے بہتر ہیں۔‘‘

سوشل میڈیا پر زہر افشانی کرنے والا گرفتار ہوگا، سندھ حکومت

صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''صوبہ سندھ پاکستان میں گلدستے کی حیثیت رکھتا ہے، ملک کے طول و عرض میں بسنے والی ہر برداری سے تعلق رکھنے والا یہاں رہتا ہے، چند شرپسند عناصر حالات خراب کرنا چاہتے ہیں لیکن عوامی نیشنل پارٹی کے سینٹر شاہی سید کا رسپانس اچھا ہے۔ جو گڑ بڑ کرانا چاہتے ہیں ان کے لیے پیغام واضح ہے، سوشل میڈیا پر ایسے لوگوں کے اکاونٹس سے پیغامات چلائے جا رہے ہیں جو دو سال پہلے انتقال کرچکے ہیں، اب جو سوشل میڈیا پر غلط اور نفرت انگیز پوسٹ لکھے گا گرفتار ہوگا، حکومت عام شہریوں کے جان ومال کو نقصان نہییں پہنچنے دے گی۔‘‘

30لاکھ غیرقانونی باشندوں کی واپسی ضروری ہے، ایاز لطیف

قوم پرست رہنما اور عوام تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ان کا موقف بالکل واضح ہے اور اس صوبے میں ہر قوم کا فرد رہ بھی سکتا ہے اور کاروباربھی کرسکتا ہے، '' ہمارا کسی قوم سے کوئی جھگڑا نہیں ہے، لیکن یہ ضرور ہے کہ ہمارے صوبے میں 30 لاکھ غیرقانونی باشندے ہیں، جنہیں واپس جانا چاہیے، میری تمام قومیتوں کے رہنماوں سے بات ہوئی ہے اور ہم مل بیٹھ کہ یہ مسئلہ حل کرلیں گے۔‘‘

 

 بلال کاکا کا مجرمانہ ریکارڈ جمع کیا جا رہا ہے

سندھ پولیس کے مطابق جس بلال کاکا کے قتل پر سندھ میں لسانی فسادات کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے، وہ ایک جرائم پیشہ تھا اور اس کے خلاف کئی مقدمات درج تھے۔ انہوں نے مزید کہا، '' بلال حیدر آباد میں دکانوں اور ہوٹلوں سے مبینہ بھتہ خوری کے علاوہ غیر قانونی اسلحہ کی خرید و فروخت میں بھی ملوث تھا جبکہ اس کا مجرمانہ ریکارڈ جمع کیا جارہا ہے تاہم اس کے قتل میں ملوث لوگوں کے خلاف بھی قانون کے مطابق کارروائی ہوگی، سوشل میڈیا پر  غلط معلومات پھیلا کر لوگوں کو فساد کے لیے اکسایا جا رہا ہے۔‘‘

سندھ میں لسانی تقسیم کی تاریخ

5 جنوری 1965 کو ہونے والے مہاجر پٹھان لسانی فساد نے کراچی سمیت سندھ کی سیاست پر گہرے اثرات چھوڑے تھے۔ اگرچہ یہ تنازعہ سیاسی نوعیت کا تھا تاہم اسے لسانی و نسلی رنگ دے دیا گیا تھا، جس کے باعث اسے کراچی کا اولین 'پٹھان سندھی فساد‘ بھی کہا جاتا ہے۔

 تاریخی حوالہ جات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس فساد کے اہم ذمہ دار اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ایوب خان کے صاحبزادے گوہر ایوب ہی تھے۔ ان فسادات نے کراچی کی سیاست میں لسانیت کو جنم دیا جبکہ کراچی میں بسنے والے مہاجروں میں ایک احساس محرومی بھی پیدا ہوا اور سن 1972 میں ہونے والے سندھ مہاجر فسادات نے اسے مزید ہوا دی۔ ناقدین کے مطابق یہی محرومی بعد میں متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم) کے وجود میں آنے کا سبب بنی اور ایم کیو ایم کا پہلا ٹکراؤ بھی پشتونوں سے ہی ہوا۔

لسانی فسادات کے پس پردہ محرکات اور خدشات

پاکستان پیپلز پارٹی کے کچھ وزراء کے مطابق صوبہ سندھ میں بسنے والی لسانی اکائیوں کے درمیان کشیدگی کا سب سے زیادہ فائدہ صرف تحریک انصاف کو ملے گا کیونکہ اس شہر میں بسنے والی پشتون کمیونٹی کی اکثریت تحریک انصاف کے ساتھ ہے۔

 تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اسد عمر صوبہ سندھ میں لسانی کشیدگی کا خدشہ ظاہر کر کے آئندہ چند روز میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں خونریزی کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ اس بیان کے تناظر میں پیپلز پارٹی کے کچھ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ چونکہ فی الوقت حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم اپنے مطالبات کے حوالے سے پیپلز پارٹی سے ناراض ہے، اور اس مخصوص صورتحال میں کسی بھی ممکنہ لسانی جھگڑے کے نتیجے میں کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں فائدہ تحریک انصاف کو ہی ہو سکتا ہے۔

سقوط ڈھاکا: سوچا تھا کہ بچے کو مار کر خودکشی کر لوں، ایک ماں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں