1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی میں فوج کی تعیناتی سے فرار کیوں؟

Ali Amjad1 مئی 2013

امن و امان کی خراب صورت حال کے پیشِ نظرکراچی میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں سترہ سیاسی جماعتوں نے فوج کو طلب کرنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن دہشت گردی کا شکار تین بڑی سیاسی جماعتیں اس مطالبے کی حمایت سے گریزاں ہیں۔

https://p.dw.com/p/18QAP
تصویر: AP

پاکستان میں مئی میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل تحریک طالبان کی جانب سے ایم کیو ایم، اے این پی اور پیپلز پارٹی کے انتخابی دفاتر اور جلسوں کو ہدف بنانے کے پے در پے واقعات نے جہاں کراچی، خیر پختونخوا اور بلوچستان میں انتخابی مہم کو متاثر کیا ہے وہیں عام لوگوں کو بھی خوفزدہ کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متاثرہ علاقوں میں انتخابات فوج کی نگرانی میں کرانے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔

یہ تینوں سیاسی جماعتیں جو طالبان سے خطرہ محسوس کررہی ہیں۔ فوج کی آمد سے کیوں خائف ہیں؟ اس حوالے سے غیر ملکی خبر رساں ادارے سے وابستہ صحافی اشرف کہتے ہیں، ’’ایم کیو ایم شروع ہی سے انتخابی عمل کے دوران فوج کی تعیناتی کی مخالف رہی ہے۔ اس جماعت کا کہنا ہے کہ اگر فوج تعینات ہوتی ہے تو اس کی ترجیح امن و امان کی بحالی ہوگی۔ وہ انتخابی عمل کی نگرانی نہیں کرسکے گی‘‘۔

اشرف کے خیال میں ایم کیو ایم کی پوزیشن اب بھی شہری علاقوں میں مستحکم ہے۔ اس کے برعکس سیاسی تجزیہ کار پروفیسر توصیف احمد کا کہنا ہے کہ فوج کی کراچی اور دیگر حصوں میں تعیناتی سے بعض سیاسی جماعتوں کو دھاندلی اور بیلٹ کے تقدس کو پامال کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ ان کا کہناہے، ’’عوام سمجھتے ہیں کہ فوج کی موجودگی میں ہی آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوسکتے ہیں۔ شہری علاقوں کی نمائندہ جماعت ایم کیوایم کو طالبان کی دھمکیوں کے بعد مذہبی جماعتوں کے اتحاد کی سخت مخالفت کا سامنا ہوسکتا ہے‘‘۔

Pakistan Anschlag in Karachi Begräbnis 24.04.2013
انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ ہی ایم کیو ایم، اے این پی اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں پر حملوں میں تیزی آگئی ہےتصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images

حالیہ انتخابات میں طالبان کی سیکیولر جماعتوں کو دھمکیوں اور ان پر حملوں نے کچہ کیا ہو یا نہ کیا ہو مگر دو دیرینہ حریف جماعتوں ایم کیو ایم اور اے این پی کو شیر و شکر ضرور کردیا ہے۔ سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک پانچ سال تک دونوں جماعتوں کی صلح کرانے کی کوشش کرتے رہے، مگر انہیں کامیابی نہ مل سکی۔

ایم کیو ایم کے نزدیک اے این پی کے صدر سینیٹر شاہی سید سب سے زیادہ ناپسندیدہ شخصیت تھے مگر اب وہ ایم کیو ایم کے مرکز آرہے ہیں اسی طرح ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما فاروق ستار شاہی سید کے گھر پہنچ کر طالبان کے خلاف اعلان جنگ کررہے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے شاہی سید کے گھر بیٹھہ کر کہا کہ عالمی قوتیں افغانستان سے واپسی سے پہلے پاکستان کی لبرل قوتوں کو قربانی کا بکرا نہ بنائیں۔ انہوں نے کہاکہ لگتا ہے کہ 2013 کے انتخابات نگراں حکومت نہیں بلکہ انتہا پسند کرارہے ہیں۔

سابق وزیر داخلہ رحمن ملک جنہوں نے ایم کیو ایم اور اے این پی کے درمیان صلح کرانے میں اہم کردار ادا کیاہے ان کا کہنا ہے کہ نئی سازش کے تحت طالبان اپنا وزیراعظم لانا چاہتے ہیں، انہوں نے میاں نوازشریف کا نام لیے بغیر کہاکہ طالبان کے حمایت یافتہ وزیراعظم کو لایا گیا تو پاکستان نہیں بچے گا۔ رحمن ملک نے کہاکہ ایک مرتبہ پھر مذہبی قوتوں کو یکجا کرکے آئی جے آئی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

Bombenexplosion Karatschi 27.04.2013 auf 28.04.2013
کراچی حالیہ حملوں کا سب سے بڑا نشانہ بنا ہےتصویر: ASIF HASSAN/AFP/Getty Images

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ نگراں حکومتی سیٹ اپ ایم کیو ایم، اے این پی اور پیپلز پارٹی کی باہمی مشاورت سے قائم ہوا ہے۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ سابقہ حکومت نے تینوں سیاسی جماعتوں کی کارکردگی نہایت مایوس کن رہی ہے۔ طالبان کی حالیہ دھمکیوں نے 2013 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کو ممکنہ شکست سے بچنے کا موقع فراہم کردیا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر دہشت گردی کی صورت حال برقرار رہتی ہے تو اور سیاسی جماعتیں خاص طور پر پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکیں تو ملک کی سیکیولر جماعتیں 2013 کے انتخابات کو مسترد کرسکتی ہیں۔

رپورٹ: رفعت سعید

ادارت: زبیر بشیر