کراچی میں فوج کی تعیناتی سے فرار کیوں؟
1 مئی 2013پاکستان میں مئی میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل تحریک طالبان کی جانب سے ایم کیو ایم، اے این پی اور پیپلز پارٹی کے انتخابی دفاتر اور جلسوں کو ہدف بنانے کے پے در پے واقعات نے جہاں کراچی، خیر پختونخوا اور بلوچستان میں انتخابی مہم کو متاثر کیا ہے وہیں عام لوگوں کو بھی خوفزدہ کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متاثرہ علاقوں میں انتخابات فوج کی نگرانی میں کرانے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔
یہ تینوں سیاسی جماعتیں جو طالبان سے خطرہ محسوس کررہی ہیں۔ فوج کی آمد سے کیوں خائف ہیں؟ اس حوالے سے غیر ملکی خبر رساں ادارے سے وابستہ صحافی اشرف کہتے ہیں، ’’ایم کیو ایم شروع ہی سے انتخابی عمل کے دوران فوج کی تعیناتی کی مخالف رہی ہے۔ اس جماعت کا کہنا ہے کہ اگر فوج تعینات ہوتی ہے تو اس کی ترجیح امن و امان کی بحالی ہوگی۔ وہ انتخابی عمل کی نگرانی نہیں کرسکے گی‘‘۔
اشرف کے خیال میں ایم کیو ایم کی پوزیشن اب بھی شہری علاقوں میں مستحکم ہے۔ اس کے برعکس سیاسی تجزیہ کار پروفیسر توصیف احمد کا کہنا ہے کہ فوج کی کراچی اور دیگر حصوں میں تعیناتی سے بعض سیاسی جماعتوں کو دھاندلی اور بیلٹ کے تقدس کو پامال کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ ان کا کہناہے، ’’عوام سمجھتے ہیں کہ فوج کی موجودگی میں ہی آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوسکتے ہیں۔ شہری علاقوں کی نمائندہ جماعت ایم کیوایم کو طالبان کی دھمکیوں کے بعد مذہبی جماعتوں کے اتحاد کی سخت مخالفت کا سامنا ہوسکتا ہے‘‘۔
حالیہ انتخابات میں طالبان کی سیکیولر جماعتوں کو دھمکیوں اور ان پر حملوں نے کچہ کیا ہو یا نہ کیا ہو مگر دو دیرینہ حریف جماعتوں ایم کیو ایم اور اے این پی کو شیر و شکر ضرور کردیا ہے۔ سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک پانچ سال تک دونوں جماعتوں کی صلح کرانے کی کوشش کرتے رہے، مگر انہیں کامیابی نہ مل سکی۔
ایم کیو ایم کے نزدیک اے این پی کے صدر سینیٹر شاہی سید سب سے زیادہ ناپسندیدہ شخصیت تھے مگر اب وہ ایم کیو ایم کے مرکز آرہے ہیں اسی طرح ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما فاروق ستار شاہی سید کے گھر پہنچ کر طالبان کے خلاف اعلان جنگ کررہے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے شاہی سید کے گھر بیٹھہ کر کہا کہ عالمی قوتیں افغانستان سے واپسی سے پہلے پاکستان کی لبرل قوتوں کو قربانی کا بکرا نہ بنائیں۔ انہوں نے کہاکہ لگتا ہے کہ 2013 کے انتخابات نگراں حکومت نہیں بلکہ انتہا پسند کرارہے ہیں۔
سابق وزیر داخلہ رحمن ملک جنہوں نے ایم کیو ایم اور اے این پی کے درمیان صلح کرانے میں اہم کردار ادا کیاہے ان کا کہنا ہے کہ نئی سازش کے تحت طالبان اپنا وزیراعظم لانا چاہتے ہیں، انہوں نے میاں نوازشریف کا نام لیے بغیر کہاکہ طالبان کے حمایت یافتہ وزیراعظم کو لایا گیا تو پاکستان نہیں بچے گا۔ رحمن ملک نے کہاکہ ایک مرتبہ پھر مذہبی قوتوں کو یکجا کرکے آئی جے آئی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ نگراں حکومتی سیٹ اپ ایم کیو ایم، اے این پی اور پیپلز پارٹی کی باہمی مشاورت سے قائم ہوا ہے۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ سابقہ حکومت نے تینوں سیاسی جماعتوں کی کارکردگی نہایت مایوس کن رہی ہے۔ طالبان کی حالیہ دھمکیوں نے 2013 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کو ممکنہ شکست سے بچنے کا موقع فراہم کردیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر دہشت گردی کی صورت حال برقرار رہتی ہے تو اور سیاسی جماعتیں خاص طور پر پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکیں تو ملک کی سیکیولر جماعتیں 2013 کے انتخابات کو مسترد کرسکتی ہیں۔
رپورٹ: رفعت سعید
ادارت: زبیر بشیر