1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی میں دہشت گردی: یومِ سوگ، ہلاک شدگان کی تدفین

رفعت سعید، کراچی14 مئی 2015

پاکستان کا تجارتی مرکز کراچی گزشتہ روز ایک بڑے دہشت گردانہ حملے میں 45 اسماعیلی مسلمانوں کی المناک موت پر ابھی تک غم زدہ ہے۔ ان بیسیوں ہلاک شدگان کو آج جمعرات کے روز سپردِ خاک کر دیا گیا۔

https://p.dw.com/p/1FPmV
الاظہر گارڈن کے اسماعیلی جماعت خانے میں ہلاک شدگان کی نماز جنازہ ادا کی جا رہی ہےتصویر: DW/R. Saeed

دہشت گردوں کے حملے کا نشانہ بننے والے 44 افراد کی میتیں شہر سے دور واقع الاظہر گارڈن منتقل کی گئیں تو وہاں قائم اسماعیلی جماعت خانے میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور پھر چار مختلف قافلوں کی صورت میں ان میتوں کو تدفین کے لیے پولیس اور رینجرز کے کڑے پہرے میں سخی حسن قبرستان لایا گیا۔ قبرستان کے اطراف میں بھی انتہائی سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے، جہاں ایک دو نہیں بلکہ چوالیس ہلاک شدگان کو ایک ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔ اسی دوران کل کی دہشت گردی میں زخمی ہونے والا ایک اور شخص آج جمعرات کے روز ہسپتال میں دم توڑ گیا۔ اس کی تدفین کی تیاریاں بھی کی جا رہی ہیں۔

بدھ تیرہ مئی کے روز کراچی میں دہشت گردی کی اس بہت ہلاکت خیز واردات پر آج جمعرات کے دن یومِ سوگ منایا گیا اور ملک کے دیگر حصوں کی طرح پورے کا پورا کراچی شہر بھی انتہائی سوگوار رہا۔ اس دوران نہ صرف بڑے بڑے تجارتی مراکز بلکہ گلی محلوں کی دکانیں تک بند رہیں، پبلک ٹرانسپورٹ بھی سڑکوں سے دور رہی اور اکثر تعلیمی ادارے بند رہے۔ جو ادارے بند نہیں تھے، وہ بھی ویران رہے۔

چند تجزیہ کاروں کے مطابق اس واقعے کے بعد حکومت کا رویہ افسوس ناک رہا۔ اس بارے میں حکومتی کارروائیاں ابھی تک نشستند، گفتند، برخاستند سے آگے نہیں بڑھ سکیں۔ اس حملے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف کراچی آئے، اعلٰی ترین سطح کا اجلاس بلایا گیا جس میں آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ بھی شریک ہوئے، سابق صدر آصف علی زرداری، وزیر اعلٰی سندھ اور صوبے میں وفاق کے نمائندے، گورنر عشرت العباد بھی موجود تھے لیکن آخرکار کوئی مضبوط فیصلہ سامنے نہیں آ سکا۔

وزیر اعظم نواز شریف نے اس واقعے کو ملک دشمنوں کی کارروائی قرار دیتے ہوئے پولیس کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے ہر صورت اس واقعے میں ملوث ملزمان کی جلد از جلد گرفتاری اور انہیں قانون کے کٹہرے میں لانے کی ہدایت کی اور مستقبل میں ایسے خونریز واقعات کی روک تھام کے لیے انٹیلیجنس نظام کو زیادہ مربوط اور مستحکم بنانے پر زور دیا۔ وزیر اعظم نے ملک میں کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائیوں کے فیصلہ کن راؤنڈ کی منظوری دی اور دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ ان کے معاونین کو بھی کیفرِ کردار تک پہنچانے کی ہدایت کی۔

Militärtreffen Karatschi
ہلاک شدگان کی میتوں کو تدفین کے لیے لے جایا جا رہا ہےتصویر: DW/R. Saeed

پاکستانی حکومت کے مطابق ملک میں دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں میں بیرونی عناصر ملوث ہیں۔ حکام کے مطابق تمام تر اشارے مبینہ طور پر بھارتی خفیہ ادارے ’را‘ کی طرف جاتے ہیں۔ اسلام آباد میں پاکستانی دفتر خارجہ نے افغان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھارتی ادارے ’را‘ کو اپنی سرزمین استعمال نہ کرنے دے۔ سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری کہتے ہیں، ’’پاکستان 15 برس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ ابھی دہشت گردوں کے کچھ گروہ باقی ہیں۔ بھارت کو بھی بتا چکے ہیں کہ ’را‘ پاکستان میں بدامنی پھیلارہی ہے۔ اور کراچی میں گرفتار دو دہشت گردوں نے بھی اعتراف کیا ہے کہ وہ ’را‘ کے تربیت یافتہ ہیں۔‘‘

قابل اعتماد ذرائع کے مطابق گزشتہ روز کور ہیڈکوارٹرز میں ہونے والے فوجی قیادت کے اعلٰی اجلاس میں بھی اس معاملے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا، جس کے بعد یہ معاملہ حکومت کی سطح پر بھارتی حکومت کے سامنے رکھ دیا گیا تھا۔

معروف صحافی مظہر عباس کے مطابق صوبے میں قائم علی شاہ گزشتہ سات برسوں سے وزیر اعلٰی کے منصب پر براجمان ہیں لیکن وہ ذمہ داری لینے کے بجائے سندھ میں امن و امان کی صورت حال کا موازنہ دیگر صوبوں میں حالات سے کر رہے ہیں۔ عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے بنائی گئی پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز کو حکمرانوں کی حفاظت پر متعین کیا گیا ہے اور دہشت گرد دن دہاڑے قتل و غارت گری کر رہے ہیں۔ مظہر عباس کے بقول وزیر اعلٰی اس آپریشن کے کپتان ہیں، اگر وہ اپنی ناکامی تسلیم نہیں کرتے اور مستعفی نہیں ہوتے تو انہیں تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے۔

دیگر ذرائع کے مطابق پولیس اور دیگر تحقیقاتی ادارے بڑی مستعدی سے قاتلوں اور ان کے پیچھے کارفرما ہاتھوں کی تلاش میں سرگرم ہیں۔ ذرائع کے مطابق حساس اداروں نے موبائل فون کے آر بی ایس سے چند مخصوص کالوں کا پتہ چلایا ہے جو اس حملے کے بعد بیرون ملک کی گئی تھیں۔ حکام نے کہا کہ انہی فون کالوں کا تعاقب کرتے ہوئے دو افراد کو حراست میں بھی لے لیا گیا ہے۔

Militärtreffen Karatschi
کراچی کے کور ہیڈکوارٹرز میں فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں صوبائی گورنر اور وزیر اعلٰی بھی شریک ہوئےتصویر: DW/R. Saeed

اسی دوران پولیس کی ایک تحقیقاتی ٹیم نے آج بھی اس جگہ کا دورہ کیا جہاں گزشتہ روز یہ افسوس ناک واقعہ پیش آیا تھا۔ معائنے کے بعد کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے اہلکار راجہ عمر خطاب نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کی یہ واردات انتہائی منصوبہ بندی اور مکمل مانیٹرنگ کے بعد کی گئی اور شبہ ہے کہ اس میں کوئی کالعدم تنظیم ملوث ہوسکتی ہے جو اس علاقے یا اطراف میں اثر و رسوخ بھی رکھتی ہو۔ چند سیاسی مبصرین کے مطابق یہ ایک بہتر پیش رفت ہے کہ اس حملے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے ایم کیو ایم کو بھی ’آن بورڈ‘ رکھا اور اس سانحے پر تعزیت کے لیے جاتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار کو بھی اپنے ساتھ لے کر گئے۔

کچھ مبصرین کی رائے میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی کراچی کے امن میں دلچسپی بظاہر حکومت سے زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ آرمی چیف گزشتہ روز سب سے پہلے کراچی پہنچے اور اپنی پوری ٹیم کے ہمراہ کراچی میں گزشتہ رات قیام بھی کیا اور آج پھر ایک اجلاس طلب کر لیا۔ اس اجلاس میں فوجی حکام کے علاوہ وزیر اعلٰی سندھ اور گورنر کو بھی شریک کیا گیا۔ ماہرین کے بقول اس اجلاس میں صوبائی گورنر کی شرکت ان پر فوج کے اعتماد کی مظہر بھی ہے۔

دریں اثناء فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے کراچی میں بیورو چیف اشرف خان کہتے ہیں کہ مشرق وسطٰی میں جاری خانہ جنگی کے اثرات پاکستان پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔ ان کے بقول داعش کے نظریے سے متاثرہ افراد کی پاکستان خصوصاﹰ کراچی میں موجودگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور اب ایسے عناصر منظم ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف قانون نافذ کرنے والے ادارے اتنے باصلاحیت نہیں کہ وہ ان گروہوں کا پتہ چلا کر ان کے خلاف پیشگی کارروائی کر سکیں۔ اس کے علاوہ انٹییلیجنس ایجنسیوں اور آپریشنل فورسز میں رابطوں کا فقدان بھی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید