1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی میں تشدد، بلٹ پروف گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ

ارسلان خالد19 اگست 2013

کراچی میں بڑھتی ہوئی ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کے پیش نظر شہر کی اشرافیہ نے اپنی مہنگی اور آرام دہ گاڑیوں کو بلٹ پروف اور بم پروف بنوانا شروع کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/19SFi
تصویر: AFP/Getty Images

بحیرہ عرب کے کنارے واقع 18 ملین آبادی کا یہ وسیع وعریض شہر فیکٹریوں، مؤثر بینکاری اور درآمدات و برآمدات کے حوالے سے پاکستانی معشیت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن ایک طویل عرصے سے یہاں تشدد، جرائم اور عدم مساوات کا سلسلہ جاری ہے۔ کراچی میں مسلح گروہوں کے درمیان جاری خونریز لڑائیوں کے پیچھے سیاسی اور نسلی عوامل بھی کارفرما ہیں اور پولیس اس صورتحال پر قابو پانے میں اب تک ناکام رہی ہے۔

پاکستان میں انسانی حقوق کی علمبردار تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ دو سال میں اس بندرگاہی شہر میں ہلاکتوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ سال 2013 کے پہلے چھ ماہ میں 1726 لوگ مارے گئے جبکہ گزشتہ سال یہ تعداد 1215 تھی۔ پولیس رابطہ کمیٹی کے اعدادوشمار کے مطابق سال 2012 میں 130 لوگوں کو تاوان کے لیے اغوا کیا گیا، جو ایک ریکارڈ ہے۔

شہر میں بہت سے کامیاب تاجروں میں سے ایک ندیم خان بھی ہیں، جن کا دوا سازی کی لیبارٹریوں اور ماربل کا کاروبار ہے۔ انہیں کئی بار دھمکیاں موصول ہو چکی ہیں اور انہیں اپنی حفاظت کے لیے حکام کی صلاحیت پر کوئی یقین نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’’کراچی کابل سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ ہمارے پاس پولیس اور رینجرز تو ہیں لیکن مجرموں کو پکڑنے میں ناکام ہیں۔ لہٰذا لوگ مجبور ہیں کہ وہ محافظ اور بلٹ پروف گاڑیاں رکھیں اور اپنی حفاطت کو خود یقینی بنائیں۔‘‘

کراچی میں طویل عرصے سے بدامنی کا سلسہ جاری ہے
کراچی میں طویل عرصے سے بدامنی کا سلسہ جاری ہےتصویر: picture-alliance/dpa

ںدیم خان نے حال ہی میں اپنی دو گاڑیوں کو بلٹ پروف اور بم پروف کروایا ہے اور اب وہ اپنے والد اور بھائی کے لیے دو اور گاڑیوں کو بلٹ پروف کروانا چاہتے ہیں۔

ندیم کا کہنا ہے، ’’میں کورنگی انڈسٹریل ایریا میں امن و امان کی کمیٹی کا سربراہ ہوں۔ اس علاقے میں بہت سے ڈاکو اور چور موجود ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مجھے متعدد بار فون پر دھمکیاں موصول ہو چکی ہیں۔‘‘

کراچی میں یہ وقت جہاں امیر لوگوں کے لیے پریشانی کا ہے وہیں ’سٹریٹ پاکستان‘ جیسی کمپنیوں کے لیے ترقی کا وقت ہے، جو گاڑیاں بلٹ پروف اور بم پروف بناتی ہیں۔ ’سٹریٹ پاکستان‘ کے سربراہ خالد یوسف کا کہنا ہے کہ ان کا کاروبار موجودہ حالات میں دوگنا ہو گیا ہے۔

اگر ورکشاپ میں نظر دوڑائی جائے تو صرف گاڑیوں کے ڈھانچے دکھائی دیتے ہیں۔ مکینک مخصوص موٹی دھات کے ٹکڑے لیزر سے کاٹ کر گاڑیوں کے دروازوں اور فرش میں لگاتے ہیں اس کے بعد بلٹ پروف شیشے لگاتے ہیں اور بیٹری کے گرد اسی دھات کا ایک جنگلا بناتے ہیں پھر گاڑی کی سسپینشن کو اس اضافی وزن کو اٹھانے کے لیے مضبوط کیا جاتا ہے۔

خالد یوسف کے مطابق اس سب پر 30 ہزار سے 45 ہزار ڈالر تک خرچ آتا ہے، جو زیادہ تر پاکستانیوں کے لیے ایک بڑی رقم ہے لیکن امراء ذہنی سکون کے لیے یہ رقم خرچ کر کے خوش ہیں اور یہی وجہ ہے کہ گاڑیاں بلٹ پروف بنانے کا کام بڑھ رہا ہے۔

ورکشاپ میں کام کرنے والے ایک سیلز مین کا کہنا ہے، ’’ ہم ایسا فلموں میں دیکھتے تھے کہ لوگ میکسیکو اور امریکا میں بلٹ پروف اور بم پروف گاڑیوں میں میں گھوم رہے ہیں اور ہم حیران ہوتے تھے کہ یہ لوگ ایسا کیوں کر رہے ہیں لیکن اب یہ سب پاکستان میں ہو رہا ہے۔ امیر اور مشہور لوگ اپنی حفاظت کے لیے بلٹ پروف اور بم پروف گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں۔‘‘

کراچی میں بلٹ پروف گاڑی میں بھی آپ محفوظ نہیں ہیں۔ گزشتہ مہیںے صدر آصف علی زرداری کے چیف سکیورٹی آفیسر بلال شیخ پر جس وقت حملہ کیا گیا تو وہ اپنی بلٹ پروف گاڑی میں سوار تھے، ان کے ڈرائیور نے جس وقت دروازہ کھولا تو خودکش حملہ آور نے گاڑی کے اندر چھلانگ لگا دی جس کے نتیجے میں بلال شیخ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔